'میں گوانتانامو میں مرنا نہیں چاہتا'
مارچ، دو ہزار تیرہ کو، کیوبا میں موجود امریکا کے بد نام زمانہ حراستی کیمپ گوانتانامو بے سے بھوک ہڑتال کی خبریں منظر عام پر آنے لگیں۔
ان خبروں کی تفصیلات نامکمل تھیں اور امریکی فوج نے بھی اپنے بیانات میں انہیں مسترد کر دیا۔
لیکن اب، یہاں موجود پانچ قیدیوں کی شہادتوں پر مبنی اس اینیمیٹڈ فلم کے ذریعے گوانتانامو بے میں قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے روزمرہ مظالم کو پیش کیا جا رہا ہے۔
آج بھی سترہ قیدی بھوک ہڑتال پر ہیں، ان میں سے سولہ کو زبردستی خوراک دی جاتی ہے جبکہ دو ہسپتال میں داخل ہیں۔
نوٹ: دی گارجین کی یہ اینیمیٹڈ فلم گونتانامو بے کیمپ میں موجود پانچ قیدیوں کے ذاتی بیان پر مبنی ہے، جس کے کچھ مناظر دیکھنے والوں کے لیے ناگوار ثابت ہوسکتے ہیں۔
[protected-iframe id="90bbbc6fa8bccae3af0c2887e685925e-32306620-33053691" info="http://embedded-video.guardianapps.co.uk/?a=false&u=/world/video/2013/oct/11/guantanamo-bay-hunger-strikes-video-animation" width="670" height="500" frameborder="0"]
وڈیو کا اردو ترجمہ
میں گوانتانامو بے میں پچھلے گیارہ سال اور چھ ماہ سے قید ہوں۔ اس دوران نہ تو مجھ پر کبھی کوئی باقاعدہ الزام عائد کیا گیا اور نہ ہی مقدمہ چلایا گیا۔میری بیوی بچے ہیں اور پانچ سال پہلے میری یہاں رہائی منظور ہوگئی تھی۔
میں خود کو کوئی نقصان نہیں پنہچا رہا بلکہ یہاں کی انتظامیہ مجھے مسلسل اذیت پنہچا رہی ہے۔
میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا جب انہوں نے پہلی بار فیڈنگ ٹیوب میری ناک میں داخل کی۔ میں بیان نہیں کرسکتا کہ اس طرح زبردستی غذا آپ کے معدے میں داخل کرنا کتنا تکلیف دہ عمل ہے۔
جب ٹیوب میرے ناک میں داخل کی گئی تو مجھے لگا میں قے کر دوں گا، میرے حلق، سینے اور پیٹ میں جیسے آگ سی لگ گئی۔
جس کرسی سے مجھے باندھا گیا اس نے مجھے موت کی کرسی کی یاد دلا دی۔ اس پر آپ کے ٹانگوں اور کاندھوں کو بیلٹ سے جکڑ دیا جاتا ہے- اگر ٹیوب غلط سمت چلی جائے تو مائع غذا آپ کے معدے کے بجائے پھیپڑوں میں بھی جاسکتی ہے۔
مجھے گوانتانامو بے کے بد ترین کیمپ فائیو میں منتقل کر دیا گیا، جہاں کے حالات دوسرے کیپمس کی نسبت کہیں زیادہ خراب ہیں۔
یہاں زور سے چلایا جاتا ہے، اونچی آواز میں گانے اور باتیں کی جاتی ہیں، یہاں بڑے پنکھے لگائے گئے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ شور پیدا ہوسکے۔
میں نے اس سے پہلے کبھی بھوک ہڑتال کا نہیں سوچا تھا، لیکن اب میں یہ سب اس لئے کر رہا ہوں کیوں کہ میں آزادی چاہتا ہوں۔
ایک ڈاکٹر نے مجھے بھوک ہڑتال ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے انہیں بتایا کہ میری بھوک ہڑتال گارڈز کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی بند کرنے تک جاری رہے گی۔
میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ صدر اوباما کو گوانتانامو بے جیسی بھیانک جگہ کو بند کرنے کا اپنا وعدہ نبھانا چاہیے۔
میں جیل کے ہسپتال میں بیمار پڑا تھا اور کسی قسم کی غذا لینے سے انکاری تھا۔ ایک دن آٹھ ملٹری پولیس اہلکاروں کا ایک اسکواڈ وارڈ میں اچانک داخل ہوا اور انہوں نے بستر سے میرے ہاتھ اور پیر باندھنے کے بعد زبردستی میرے ہاتھ میں آئی وی ٹیوب داخل کردی۔
میں چھبیس گھنٹوں تک اسی حالت میں پڑا رہا۔ بعد میں انہوں نے ناک کے ذریعہ مجھے غذا دینی شروع کی۔
خوراک بہت تیزی سے میرے معدے میں داخل ہو رہی تھی، میں نے ایک افسر سے اس کی رفتار کم کرنے کو کہا لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کی رفتار مزید تیز کرنے کی کوشش کی۔
کام ختم ہوجانے کے بعد اس نے بے دردی سے ٹیوب باہر کھینچ لی۔
کاش کہ سیاست دان سمجھ سکیں کہ معاملہ صرف خوراک دینے کا نہیں۔
بس بہت ہوگیا، میں یہاں اور نہیں رہ سکتا اسی لیے میں خود کو قربان کر رہا ہوں۔
یہاں کے حکام قیدیوں کے وزن کے ساتھ ہیر پھیر کرتے ہیں۔
ان کے وزن کی پیمائش کے دوران بیڑیاں پہنائی جاتی ہیں یا پھر اکثر انہیں بہت سارا پانی پلا کر فوراً وزن کیا جاتا ہے۔
وہ وزن لکھنے کے دوران اسے قیدیوں سے چھپاتے ہیں تاکہ انہیں کچھ معلوم نہ ہوسکے۔
مجھے اب بھی زبردستی خوراک دی جاتی ہے۔ دن میں دو بار مجھے میرے سیل میں کرسی سے باندھا جاتا ہے۔
مجھے علم نہیں ہوتا کہ وہ کب آئیں گے۔ کبھی کبھی تو وہ رات کو میرے سونے کے دوران آن دھمکتے ہیں۔
اس سب کا عادی ہو جانے کے باوجود میرے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ یہ بالکل ایک سو اسی میل فی گھنٹہ والی کار ریس کی طرح محسوس ہوتا ہے۔
جب میں اپنے سیل آیا تو وہاں تمام سامان کوڑے کرکٹ کی طرح زمین پر بکھرا ہوا تھا۔
کاغذات زمین پر پڑے تھے اور سیکورٹی اہلکار وہاں سے سب کچھ، میری قانونی دستاویزات، حتیٰ کہ میرے بچوں کی ڈرائنگ تک لے گئے تھے۔
یہاں چوراسی قیدیوں کو آزادی کا پروانہ مل چکا ہے لیکن ہم پھر بھی یہیں ہیں۔
ہمیں اپنے دلوں میں بنا کوئی نفرت لئے یہاں سے جانے دیں، نفرت برائی ہے۔ یہ نا صرف نفرت کا شکار بننے والے کو نقصان پنہچاتی ہے بلکہ نفرت کرنے والے کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔
میں یہاں بنا کسی جرم کے قید ہوں۔ اس معاملے کا واحد حل یہ ہے کہ مجھے آزاد کر دیا جائے کیوں کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔
میں چھیالیس سال کا ہوچکا ہوں، میں بس اپنے خاندان سے ملنا چاہتا ہوں۔ میری خواہش صرف آزادی ہے۔
چاہے میں آپ کو کتنا ہی مضبوط اور سخت جان ہی نظر کیوں نہ آؤں مگر حقیقت یہ ہے کہ میں اندر سے مر رہا ہوں۔
یہ نہیں چاہتے کہ ہم مر جائیں اور یہ بھی نہیں چاہتے کہ ہم انسانوں کی طرح جیئیں۔
ہر طرف اذیت ہی اذیت ہے۔ میں گوانتانامو بے میں مرنا نہیں چاہتا۔
ویڈیو بشکریہ: دی گارجین / ترجمہ: ناہید اسرار