نقطہ نظر

ڈی این اے ٹیسٹ کا اخلاقی جواز

زیادہ تر پاکستانی یہ ماننے کو ہی تیار نہیں کہ یہاں روزانہ بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے ریپ ہوتے ہیں

ذرا تصورکریں کہ آپ پر ایک ویران سہ پہرکو چار آدمیوں نے آپ ہی کے محلہ میں ایک سنسان سڑک پرحملہ کردیا ہے، آپ کے سارے پیسے چھین لئے ہوں یا گولی مار کر آپ کو ٹھیک ٹھاک زخمی کردیا ہو-

آپ کو اسپتال میں داخل کیا گیا ہے، جہاں ڈاکٹر آپکے زخموں کی وجہ سے آپکا آپریشن کرتے ہیں- مگر جب ان بدمعاشوں کو پکڑنے اور عدالت کے حوالے کرنےکا وقت آتا ہے تو پولیس مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیتی ہے کیونکہ جج آپ کی بات کا یقین نہیں کریگا کہ آپ کے ساتھ واقعی کچھ ہوا ہے، کیونکہ کسی نے یہ جرم ہوتے ہوئے نہیں دیکھا-

آپ کے زخموں کے نشان عدالت کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے، آپ کے ڈاکٹروں کے بیان بھی کہ آپ شدید زخمی ہوئے تھے کسی گنتی میں نہیں آئینگے کیونکہ گواہ موجود نہیں- آپ اگرچہ انھیں اچھی طرح سے پہچان لیتے ہیں تب بھی آپ کے مجرم آزاد رہینگے-

یہ ہے جو اس ملک میں ریپ کی شکار ہر عورت کے ساتھ روز ہوتا ہے، جس کی وجہ ایک دقیانوسی سوچ ہے (حدود آرڈیننس کی مہربانی سے) یعنی کسی بھی ریپ کے ملزم کو سزا دلوانے کے لئے چار بالغ مرد گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے.

اسلامک آئیڈیالوجی کونسل (CII) کا ڈی این اے اور دوسرے تفتیشی ثبوتوں کو ریپ کے واقعات میں ایک اہم ثبوت ماننے سے انکار ----جس کے بارے میں گزشتہ مہینے ایک میٹنگ میں ان کے بیانات ہیں---- جس میں انہوں نے (Women's protection Act 2006) عورتوں کے تحفظ کے قانون 2006 کو بھی رد کردیا جس کی وجہ ان کا یہ یقین تھا کہ ضیاء الحق کا حدود آرڈیننس ان تمام چیزوں کا مکمل طور پراحاطہ کرتا ہے اور اس کے بعد کسی قانون کی ضرورت نہیں ہے. اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اسی قانون کے ساتھ مرنا جینا ہے جو  ریپ کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے بجائے اس کے کہ جس کا ریپ ہوا ہو-

اب پیپلز پارٹی کی سیاستدان اور ایم پی اے شرمیلا فاروقی سندھ اسمبلی میں ایک مہم چلا رہی  ہیں کہ ریپ کے واقعات میں ڈی این اے ٹیسٹنگ کو لازمی قرار دینے کے قانون کو ایک بل کی شکل میں پاس کرایا جائے.

باوجود اس کے کہ مذہبی گروپس نے ڈی این اے کی جانچ کو بے حد اہم ثبوت کے طور پر ماننے کی مخالفت کی ہے اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ شائد وہ اپنی ان کوششوں میں کامیاب ہو ہی جائیں کیونکہ خوش قسمتی سے ملک کے اندر قانون بنانے کے عمل میں کونسل آف اسلامک آئیڈیا لوجی کا کسی طرح کا عمل دخل نہیں ہے گو کہ حکومت وقت پر ان نام نہاد علماء کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے.

لیکن اس میں بھی شک نہیں ہے کہ اس بل کو اسمبلی میں پیش کرنے کے لئے سندھ کی  وزارت داخلہ اور محکمہ قانون کو قائل کرنا شائد کافی مشکل مرحلہ ہو جیسا کہ شرمیلا فاروقی کا خیال ہے کہ وہ ان معاملات میں اس قسم کے ترقی پسندانہ عمل کی حمایت کرنے میں جھجک محسوس کرتےہیں-

یہ بل یوں بھی شائد ایک بے حد سائینٹفک نوعیت کا قانون ہے جو اس اسمبلی کی تاریخ میں آج تک پیش کیا گیا ہو- اس کے مطابق ریپ کی شکایت کے بارہ گھنٹے کے اندر ڈی این اے کی لازمی جانچ کی محکمانہ کارروائی کروانا ضروری ہوگا-

یہ بات پولیس کے فرائض کا حصہ ہوگی کہ وہ ریپ کے شکار کو جانچ کے متعلقہ ادارے تک پہنچاۓ- اور اس ادارے کے میڈیکل اسٹاف کے بھی فرائض میں شامل ہوگا کہ ڈی این اے کی جانچ کے تمام مراحل ضابطہ کے مطابق کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ تمام ثبوت اور (Rape Kit) ان کے پاس موجود ہوں نیز ریپ کے شکار سے متعلق تمام حقائق کی رازداری کا بھی شعور ہو-

یہ بل ڈی این اے کے ثبوت کو عدالت میں استعمال کرنے یا نہ کرنے کے ضابطہ کا بھی احاطہ کرتا ہے- ساتھ ہی اگر اس ثبوت میں کسی طرح کا کوئی بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہو تو اس کے سد باب کے ساتھ ایسی کوشش کرنے والے کا مواخذہ بھی شامل ہے-

اس کے علاوہ یہ بل حکومت سندھ کو ایسی قانونی لیباریٹریاں بنانے کی سفارش بھی کرتا ہے جہان اس قسم کی جانچ کی سہولتیں موجود ہوں اور اس کے اخراجات سرکار کی ذمہ داری ہوں جس کے لئے نوے دنوں کے اندر حکومت ایک ڈی این اے فنڈ قائم کرے-

ریپ کافی عرصہ سے پاکستان کا ایک نہایت پیچیدہ، نازک اور متنازعہ مسئلہ ہے- زیادہ تر پاکستانی اس معاملے میں شک و شبہ کا شکار ہوتے ہیں بلکہ اس کوماننے کے لئے تیار نہیں کہ پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے اس کا روزانہ شکار ہوتے ہیں-

اگر یہ کسی عورت کے بارے میں ہو تو عموماً اس عورت کے چال چلن پر شک کا اظہار کیا جاتا ہے یا یہ کہ عورتیں اگر ایسے بے حیائی کے کپڑے نہ پہنیں یا وہ گھر سے باہر نہ نکلیں یا اسی طرح کے درجنوں مفروضہ الزامات کہ وہ اگر ایسا نہ کریں تو ان کے ساتھ ایسا نہ ہو-

اکثرو بیشتر "اسلامی اقدار اور روایات" کی طرف واپسی ریپ کے اس مسئلہ کا واحد حل سمجھا جاتا ہے اور کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کا اسلامی اصولوں پر سختی سے عمل پر اصرار، بجائے اس کے کہ زمانے کے ساتھ ساتھ آگے چل کرڈی این اے کی جانچ کو ثبوت کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دیں، رجعت پسندی کے طرز فکر کا ایک نمونہ ہے.

ریپ کے واقعات کی چھان بین میں ڈی این اے کی جانچ کی اہمیت دنیا بھر میں تسلیم کرلی گئی ہے، اگرچہ کہ صرف اور صرف یہی ثبوت کافی نہیں اس کے علاوہ جتنا بھی مواد ریپ کے شکار کے جسم اور کپڑوں پر ملتا ہے وہ سب ملا کر ریپ کے شکار اور جنسی حملہ آور کے خلاف مکمل سائنٹفک ثبوت فراہم کرتا ہے-

جب کوئی گواہ موجود نہ ہو (اور زیادہ تر حملہ آور اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر چار بالغ مسلمان اس کارروائی کو دیکھنے کے لئے موجود نہ ہوں جب وہ یہ جرم کررہے ہوں)-

لیکن جب شکار کو ریپ کرنے کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے تاکہ کوئی اس کو پہچان نہ سکے یا کسی بچے کو ریپ کرنے کے واقعے میں جہاں بچہ حملہ کرنے والے کو نہیں پہچان سکے یا سمجھ نہ سکے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے ڈی این اے کی جانچ ہی وہ واحد طریقہ ہے جس کی بنا پرحملہ آور کے پاس اپنا جرم قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا  ---جووہ پولیس کے سامنے قبول کرنے کے بعد عدالت میں مکر جاتے ہیں (جو اکثرو بیشتر پولیس کی زیادتیوں کے نتیجے میں بھی ہوتی ہیں) ڈی این اے کے ثبوتوں کی موجودگی میں اس کا کوئی امکان نہیں-

جہاں لازمی ڈی این اے کی جانچ کا مقصد ریپ کے شکار کو ایک قانونی سہارا مہیا کرنا ہے اس قانون کو پاس کرنے کا ایک مزید فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی غلط شخص پر ریپ کا جھوٹا الزام لگ جائے تو ڈی این اے  کے ذریعہ اس کو غلط ثابت کیا جاسکتا ہے- یہ چیزسندھ کی صوبائی اسمبلی کے لئے اس بل کو پاس کرنے کی ایک مضبوط وجہ ہوسکتی ہے خواہ ان کو عورتوں کی بھلائی خصوصاً ریپ کی شکار عورتوں کا تحفظ اتنی زیادہ ضروری چیز نہ لگتی ہو-

اس بل کو پاس کرنے کا مقصد ریپ کی شکارعورتوں کا زیادہ تحفظ نہ صرف شکار ہونے کے بعد بلکہ پہلے بھی ہے کیونکہ حملہ آور کو یہ ڈر بھی ہوگا کہ ڈی این اے کی جانچ کے بعد ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہوگی- اگر سائنسی ثبوت ریپ کے واقعات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے تو اس ثبوت کا استعمال ریپ کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے ایک توجہ طلب اخلاقی ذمہ داری ہونی چاہئے-

یقینی طور پر اکیسویں صدی کے پاکستان کے لئے یہ نادر موقع ہے کے اسلامی قوانین اور سائنس کو ایک دوسرے کی مدد کے لئے استعمال کر کے بہترین انصاف کی مثال قائم کریں جس کی ضرورت ریپ کے شکار اور پھر زندہ بچ جانے والے لوگوں کو بہت زیادہ ہے-


ترجمہ: علی مظفر جعفری

بینا شاہ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔