پاکستان

”ہم تمہیں بہت مس کررہے ہیں شکیل!“

یوں لگتا ہے کہ وہ اپنی اسپورٹس موٹر بائیک کو ریس دے کر آس پاس کہیں رپورٹنگ کے لیے گیا ہے اور ابھی واپس آجائے گا۔

"آخر یہ تمہارا والا حیدرآباد کیا چیز ہے؟ "میرے ہم نام مظہر علی  نے کئی بار مجھ سے پوچھا اور بالآخر میں نے انہیں بتایا کہ حیدرآباد کی کہانی کیا ہے۔

مظہر کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا اور وہ پاک انڈیا پیس موومنٹ کے بھارتی چیپٹر کے سربراہ تھے۔ تقسیم کے وقت حیدرآباد سندھ میں ہیرآباد سے آنے والے کئی سندھیوں کو حیدرآباد دکن کا نام محض حیدرآباد کی وجہ سے اتنا بھایا کہ وہ دور دراز جنوبی بھارت کے اس شہر میں منتقل ہوگئے۔

برادرم مظہر نےبتایا کہ حیدرآباد دکن میں سندھی زبان کو قومی زبانوں میں شامل کیے جانے کی تحریک اس قدر زور و شورسے چل رہی ہے کہ سندھیوں کے اکثر ہوٹلوں اور ریسٹورینٹس کے آگے بینر لگے ہوئے ہیں کہ:

“Speak Sindhi and get 10% discount!”

مظہر سے میرا یہ وعدہ کہ ڈسکاؤنٹ ختم ہونے سے پہلےکسی دن  میں حیدرآباد دکن آکر وہاں کی مٹی کو سلام کروں گا، ابھی تک پورا نہیں ہوسکا۔  لیکن میں نے مظہر کو یہ بتایا کہ میرے حیدرآباد میں میر تقی میر اور غالب کی اردو  یوں بولی جاتی ہے، جیسے وہ فیض آباد یا بجنور میں بولی جاتی ہو اور وہ میری ایسی  ہی ماں بولی ہے جیسے غلام شاہ کلہوڑو کی زبان میری ماں بولی کی طرح ہے۔ مظہر کی آنکھوں میں چمک تو آگئی لیکن میں کہہ نہیں سکتا کہ انہیں سچ مچ یقین بھی آیا۔

میرے دوست شکیل بچانی کو پتہ تھا کہ خواجہ فرید میرے اور اس کے پیر و مرشد ضرور تھے اور ماں نے مجھے سرائیکی ضرور سکھائی تھی لیکن سرائیکی میری ماں بولی نہیں تھی۔ میں تو "چکیں بلوچانی اور گلڑیں شیرانی!" تھا۔ ہم سرائیکی وسیب میں کچھ سو برسوں کے لیے مہمان  ہوئے تھے، جہاں باغی خواجہ فرید نے میرے بزرگوں کو سکھایا تھا کہ "پٹ انگریزی تھانے!" وہاں  سے ہمیں تالپوروں کا انتظام چلانے کے لیے جنوب میں آنا پڑا جہاں بھٹو ہمارے ہاری بنے  اور پھر بوجوہ  ان کے دل سے ہمارے  بڑے ولی  محمد خان لغاری کے لیے دشمنی کبھی نہ نکل سکی! حتّٰی کہ شیر باز مزاری بھی مجبور ہوئے کہ اس داستان کو رقم کریں۔

  میرے حیدرآباد میں میر تقی میر اور غالب کی اردو یوں بولی جاتی ہے جیسے وہ فیض آباد یا بجنور میں بولی جاتی ہو اور وہ میری ایسی  ہی ماں بولی ہے جیسے غلام شاھ کلھوڑو کی زبان

گرچہ میری ماں نہ تو ابراہیم جویو تھی اور نہ ہی جمیل جالبی لیکن میں نے اپنے گھر کی بہت بڑی لائبریری میں جب بھی حافظ کی کتاب بمع اردو ترجمہ اُٹھائی، امی نے ہمیشہ کہا "تم حافظ کو پڑھ رہے ہو! کسی دن پاگل ہو جاؤ گے!" اور اپنی عقل کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے اماں  بڑی پہنچی ہوئی بزرگ تھیں۔

میرے لیے بچپن سے یہ بحران رہا کہ آخر میری ماں بولی کون سی ہے؟ نجام الدین کی بولی؟ خواجہ فرید کی بولی؟ کیچ مکران کی "چہ حال انت؟" یا میرے لطیف کی بولی؟  وقت نے مجھے سکھایا کہ یہ تینوں میری زبانیں ہیں اور جب ادارتی امانت داری میرے اور شکیل بچانی کے حصے میں آئی تو ہم نے کسی کے لیے یہ فرق نہیں چھوڑا کہ وہ ہمارے لوگوں کو ان زبانوں کی بنا پر ایک دوسرے سے علیحدہ کرے۔

پریس کلب کے لان میں جب کبھی کوئی سڑا ہوا قوم پرست ہم سے  بحث میں اُلجھتا تو اس سے جان چھڑانے کے لیے بالآخر ہم سندھی میں نعرہ لگاتے: "جو لوگوں کے ساتھ تعصب کرے، اس پر؟" ۔۔۔۔ اور پھر ہم خود ہی اس نعرے کا  جواب دے کر  بے چارے لوگوں کی مشکل آسان کردیتے: "کجھ بہ نہ!" سارا پریس کلب  ہماری ہنسی میں شریک ہوتا۔ پریس کلب، جس کی چھت ہائیڈ پارک تھی۔ ہرکوئی اپنی مرضی سے کچھ نہ کچھ کڑوا لے کر آتا اور  اپنی اپنی میز پر بیٹھ کر  سقراط بن جاتا۔ ایک ہی جگہ پر لوگ اپنے اپنے دائروں میں بیٹھتے، اپنی سوچوں کے دائروں میں۔

  امی نے ہمیشہ کہا "تم حافظ کو پڑھ رہے ہو! کسی دن پاگل ہو جاؤ گے!" اور اپنی عقل کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے اماں بڑی پہنچی ہوئی بزرگ تھیں۔

شروع شروع  کی بات ہے۔ ٹنڈو اللہ یا ر میں میں نے اور تسلیم نے شکیل کی امی کے پاس جب وہی کتابیں دیکھیں جو ہمارے پاس تھیں تو ہم مطمئن ہوگئے تھے کہ اب ہم محفوظ ہاتھوں میں ہیں اوربہت دلچسپ دن آنے والے ہیں۔ شکیل ایک عظیم سندھی  مصنف کا بیٹا تھا۔ اس کی روشن خیالی کی لو اس کے والد کی سوچوں کا سایہ تھی۔

اور یہ مذاق نہیں کہ شکیل ہمارے پیر و مرشد حلیم بروہی کے دوستوں  کے حلقے میں شامل تھا۔ حلیم جب بھی کاوش (سندھی اخبار) آتا تو آتے ہی چائے کی فرمائش کرتا۔ کاوش میں چاچا جمعہ دھوئیں کی آمیزش والی چائے پیش کرتا۔ اور اگر حلیم دیر سے آتا اور اس دھواں دار چائے کا دور پہلے ہی چل چکا ہوتا تو  "ادارے" کے قوائد و ضوابط کی رو سے دوبارہ چولہا جلانا ممنوع ہوتا۔ ایسے میں شکیل کی اسپورٹس موٹر سائیکل ہواؤں میں اُڑتی  جاتی اور کچھ منٹوں میں وہ صدر کے کیفے صلاح سے دودھ پتی والی ایسی گاڑھی چائے لے آتا جسے کچھ دوست "ہارٹ اٹیک چائے" بھی کہتے تھے۔

بڑے عرصے بعد حلیم نے مجھے بتایا کہ ہر چند اس کا دل تو چاہتا تھا  کہ اس "کتب خانے" میں آکر  وہ کوئی ہارڈ ڈرنک لے لیکن چونکہ ہم میں سے کوئی اسے ہارڈ ڈرنک پیش نہیں کرسکتا تھا، اس لئے وہ  محض چائے پر ہی گزارہ کرتا تھا۔

شکیل کو پتہ تھا کہ نفرت کا کھیل کیا گُل کھلا سکتا ہے۔ وہ ان  چندخیرخواہوں کے گروپ میں شامل تھا جنہوں نے الیاس عشقی کو قاسم آباد چھوڑنے کا مشورہ دیا  تھا کیونکہ بقول ملک عزیز کے حیدرآباد کے لوگ "بدبودار سندھیوں اور بدبودار مہاجروں" میں تقسیم ہوتے جارہے تھے اور حیدرآباد  خودکشی کا سوچ رہا تھا۔

عشقی  سے بہتر بیٹا سندھ مشکل سے پیدا کرے گی۔ ان کی  شناخت کا پاسپورٹ عشق تھا۔ ان کے ساتھ وہ ہوا جو فاشزم میں ہوتا ہے۔  برسوں بعد جب ہم حیدرآباد کے بٹوارے کی تفصیلات ڈاکیومینٹ کررہے تھے، اور تاریخ کا قلم شکیل کے ہاتھ میں آیا تو اس نے اس کمینگی کی کہانی من و عن بیان کی۔ ہم گاندھیوں، نہروؤں، اور جناحوں کو تو پہچانتے تھے لیکن ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ اس پارٹیشن کا ماؤنٹ بیٹن کون تھا؟

  حیدرآباد کے لوگ "بدبودار سندھیوں اور بدبودار مہاجروں" میں تقسیم ہوتے جارہے تھے اور حیدرآباد خودکشی کا سوچ رہا تھا۔

تب ہمیں حلیم نے اپنے اوپر ہنسنا سکھایا۔ میرا تو جو بھی حال رہا لیکن شکیل  اپنی ذات کے اوپر قہقہہ بن گیا۔ اس کی حسِ  مزاح بہت تیز تھی۔ وہ پاکستان کے تمام اقتداری کامیڈیئنز کی ایسی نقل اتارتا تھا کہ ان میں سے ہر ایک لالو پرساد یادو بن جاتا تھا۔  کالاباغ ڈیم پر بحث کے زمانے میں شکیل کاسب سے اچھا آئٹم اس زمانے کے "پانی پرست" سندھی سید قمرالزماں شاہ ہوتے۔ شاہ صاحب چڑچڑے آدمی تھے اور انہیں بہت جلد غصہ آتا تھا۔ اور غصے میں ان کی آواز جس طرح باریک ہوتی جاتی تھی، شکیل اس کی زبردست نقل اتارتے تھے۔ وہ ایسی سندھی زدہ اردو  تھی جس میں  "بھین ساں" کا لفظ بار بار رپیٹ ہوتا تھا۔

کسی چیف منسٹر کی نوکری کے جانے کا وقت قریب  آتا تو شکیل کئی ہفتے پہلے سے انڈین فلم کرن ارجن کا ڈائیلاگ  دُہرانا شروع کرتا : "ٹھاکر تو گیو!" اور پھر سارا نیوز روم کہنا شروع کرتا  "ٹھاکر تو گیو!"

کسی خرابی کی وجہ سے جنگل میں رکی ہوئی ریل گاڑی ہو، تربت سے ہائی جیک ہوکر حیدرآباد اترنے والا جہاز ہو، پرویز مشرف کے خلاف اس کے اپنے جلسے میں لگنے والےلعنت کے نعرے ہوں، شکیل ان کو بلا خطر رپورٹ کرتا۔ سندھ یونیورسٹی کے نکمے ڈپارٹمنٹ ہوں، عظیم المرتبت جاہل سندھی  اساتذہ کرام ہوں جنہیں "شمس العلما" کہا جاتا ہے، کرپٹ رجسٹرار یا وی سی ہوں، شکیل حقیقت کو جوتے کی طرح ان کے منہ پر دے مارتا۔

سچ بولنے والے کو تو شاید ڈرایا جاسکتا ہے لیکن سچ سے ڈر لگتا ہے۔  ایک مرتبہ ایک بڑے سیاستدان نے اخبار کے مالک سے شکایت کی کہ شکیل نے ان کے بارے میں  لکھا ہے "تمہیں حیف ہو!"  سندھی میں "حیف ہو" کے بالواسطہ معانی ہیں "تم پر لعنت ہو!" ایڈیٹر بہت تلملایا، لیکن شکیل نے اس وڈیرے سے معافی نہیں مانگی۔

شکیل کے پسندیدہ نیوز کیریکٹرز میں بینظیر بھٹو اورعاصمہ جہانگیر سرفہرست تھیں، لیکن اسے بینظیر کا حیدرآباد کے جلسے میں نواز شریف کے لیے چوڑیاں پھینکنا پسند نہیں آیا۔ شکیل کی سب سے مشکل اسائنمنٹ بدین اور ٹھٹھہ کے ساحلی علاقوں میں آنے والا سائیکلون تھا۔ سائیکلون کے بعد جب وہ  وہاں پہنچا تو اس نے علاقے میں ایک ایک فٹ  لمبے سمندری بچھو دیکھے۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ یہ بچھو کریب (کیکڑے) نہیں سچ مچ بچھو تھے  جو مینگرووز کے درختوں سے چمٹے ہوئے تھے اور جھڑ رہے تھے۔

  ایک مرتبہ ایک بڑے سیاستدان نے اخبار کے مالک سے شکایت کی کہ شکیل نے ان کے بارے میں  لکھا ہے "تمہیں حیف ہو!"

شکیل حیدرآباد کا حقیقی مالک تھا۔ چاہے وہ گلاب گلی ہو جو شہر کی انٹرٹینمنٹ گلی کے طور پرمشہور ہے یا کوئی تاریخی "پڑِ" ہو جہاں سے ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہوں۔ اسے شہر کے کونے کونے کا پتہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کہاں اچھا پان ملتا ہے اور کہاں اچھی چائے جو آپ کے حیدرآباد کے سفر کو یادگار بناسکتی ہے۔

پتہ نہیں آج بھی ایسے لگتا ہے جیسے وہ اپنی اسپورٹس موٹر بائیک کو ریس دے کر آس پاس کہیں رپورٹنگ کے لیے گیا ہے اور ابھی  واپس آجائے گا۔ پتہ نہیں اب وہ کس باس کو رپورٹ کرتا ہوگا؟

میں شکیل کا، اختر بلوچ اور سعید افضال کا شکرگزار ہوں کہ شام کے سات بجے کے بعد جب بھی انہوں نے مجھےکٹی ہوئی پتنگ کی طرح اونچے آسمان پر دیکھا، کسی طرح اپنی اڑن طشتری پر بٹھا کر مجھے اپنے گھر چھوڑ گئے۔ آج  میں خود کو کسی انجان دوراہے یا چوراہے پر بدحواس کھڑا محسوس کرتا ہوں۔ حیدرآباد چھوڑنے کے بعد سچ مچ کوئی بھی ایسا نہیں ملا جو  مجھے اپنے گھر کا راستہ بتا سکے! فیض  جب سینٹرل جیل حیدرآباد میں بند تھے تب انہوں نے یہ غزل لکھی تھی:

  ایسے لگتا ہے جیسے وہ اپنی اسپورٹس موٹر بائیک کو ریس دے کر آس پاس کہیں رپورٹنگ کے لئے گیا ہے اور ابھی  واپس آجائے گا۔ پتہ نہیں اب وہ کس باس کو رپورٹ کرتا ہوگا؟

بسر یوں ہم نے زندگی کی ہے

ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے

تیرے کوچے میں بادشاہی کی

جب سے نکلے گداگری کی ہے

فیض اوج خیال سے ہم نے

آسماں سندھ کی زمیں کی ہے