نقطہ نظر

خناق سے اموات

پنجاب میں سانس کی نالیوں کے امراض سے بچوں کی اموات، حکومتیں آنکھیں کھولیں۔

خناق یا سانس کی نالیوں سے جڑے امراض کے سبب، پنجاب میں حالیہ دنوں چار بچوں کی اموات، چاروں صوبائی حکومتوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونی چاہیے کہ طویل عرصے سے بچوں میں بنیادی وبائی امراض کے خاتمے کے لیے جاری ویکسی نیشن مہم  میں اب تک خامیاں کیوں موجود ہیں۔

سانس کی نالیوں میں خطرناک انفیکشن کے باعث رواں سال پنجاب میں اب تک کم از کم سات اموات ہوچکی ہیں، گذشتہ برس صوبے میں خناق کے دو مریض سامنے آئے تھے۔

خناق کی وبا سامنے آنے پر ذرا بھی لاپرواہی نہیں برتنا چاہیے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر اس کا ایک مریض بھی سامنے آتا ہے تو یہ 'وبا کے پھوٹ پڑنے کا اشارہ' ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں اس کے انسداد کے لیے دوا کی عدم موجودگی نے صورتِ حال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔

ایسے میں یہ حقائق مزید پریشان کُن ہیں کہ پنجاب میں گذشتہ برس وبائی امراض سے بچاؤ کے لیے صرف ستاون اعشاریہ پانچ فیصد بچوں کی ویکسی نیشن کی گئی تھی۔ یہ صورتِ حال نہ صرف محکمہ صحت کی خامیوں کی جانب اشارہ کرتی ہے بلکہ وہ امراض جنہیں پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے، انہیں اجازت بھی دیتی ہے کہ وبا کی صورت میں پلٹ آئیں۔

خناق،امیونائزیشن توسیعی پروگرام میں شامل ہے لیکن جہاں ملک کے سب سے گنجان آبادی والے بڑے صوبے میں، بچوں کی اتنی بڑی تعداد ویکسی نیشن سے محروم رہے، وہاں اس جاں لیوا وبا کا پھوٹ پڑھنا حیرانی کا باعث ہوگا؟

اگرچہ ریاست کے تحت چلنے والے شعبہ صحت کی کارگزاری زیادہ اطمینان بخش نہیں لیکن جہاں تک بچوں کی ویکسی نیشن سے محرومی کا تعلق ہے تو اس کی ذمہ داری خود معاشرے کے کندھوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔

لوگوں کی بڑی تعداد کا ریاستی مشینری پر اعتبار نہیں اور زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کی خاطر لے کر نہیں جاتے، لہٰذا اس تناظر میں صوبائی محکمہ صحت کو چاہیے کہ وہ صحت کی خدمات کے حوالے سے اپنے عوامی تاثر کو بہتر بنانے کی خاطر کام کرے۔

کمیونٹی کے سربراہوں، عوامی نمائندوں اور مقامی علما کو ساتھ شامل کر کے  لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوششیں کرنی چاہئیں کہ وہ سرکاری شعبہ صحت کے مراکز پر اپنے بچوں کو لے کر آئیں اور انہیں وبائی امراض سے بچاؤ کے ٹیکے لگوائیں اور قطرے پلوائیں لیکن صرف اچھے تعلقات ہی کارگر ثابت نہیں ہوں گے۔

صحتِ عامہ کی سہولیات کی بہتر فراہمی کے پیچھے اعتماد سازی اور عوامی آگاہی مہم کے اقدامات بھی ہونے چاہئیں۔