مقامی افراد کے مطابق یہ کوئی نیا واقعہ نہیں کیونکہ اس علاقے میں جزائر نمودار ہوتے اور غائب ہوتے رہتے ہیں ۔ ہنگول سے کچھ دور پانیوں میں 16 نومبر 2010 کو ایسا ہی ایک جزیرہ دریافت ہوا تھا جو نرم مٹی پر مشتمل تھا ۔
جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر، انور حسین نے ہنگول کے جزیرے کا تحقیقی دورہ کیا تھا۔
' ہنگول جزیرہ ستمبر میں نمودار ہونے والے جزیروں سے قدرے بڑا تھا جو تھوڑے عرصے کے بعد ہی ڈوب گیا تھا۔ ایسے مٹی کے آتش فشاں پہاڑوں یا مڈ وولکینو اس علاقے میں عام ہیں،' انور حسین نے کہا۔
' میں نے دیکھا کہ ہنگول جزیرے پر کئی مقام سے میتھین گیس خارج ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ سلفر اور تانبے کا سراغ بھی ملا ہے،' انہوں نے کہا۔
اسی طرح کے دنیا میں گرم مٹی اگلنے والے بلند اور سرگرم ترین پہاڑوں میں سے ایک ،' چندرگپتا' یعنی چاند آتش فشاں بھی گوادر کے علاقے میں خشکی پر موجود ہے۔
انور حسین نے کہا مکران کے ساحلوں پر میتھین گیس ذخائر کے وسیع امکانات ہوسکتےہیں۔ انہوں نے اس علاقے میں تفصیلی جیوفزیکل تجزیئے پر زور دیا تاکہ ہائیڈرو کاربنز کے امکانات کا جائزہ لیا جاسکے۔
دوسری جانب کاری میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی ( این آئی او) نے بھی اسی علاقے میں ایک منجمند میتھین گیس کے امکانات ظاہر کئے ہیں۔
زلزلہ بم کی ٹک ٹک اور مکران سونامی
زلزلوں کے درجنوں چھوٹے واقعات کے ساتھ پاکستانی تاریخ میں دو اہم زلزلے نمودار ہوئے ہیں جن میں مئی 1935 کا زلزلہ شامل ہے جس میں 30,000 افراد ہلاک ہوئے اکتوبر 2005 میں پاکستانی کے زیرِ انتطام کشمیر میں 75,000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
کوئٹہ زلزلہ چمن فالٹ کی وجہ سے آیا تھا جبکہ کشمیر زلزلہ انڈین اور یوریشین پلیٹس کے درمیان سرگرمی کی وجہ سے رونما ہوا تھا۔
تاہم مکران کے پانیوں میں بھی ایک ارضیاتی بم خوابیدہ ہے لیکن اس کی ٹک ٹک جاری ہے یہ مکران سبڈکشن زون ( ایم ایس زیڈ) کہلاتا ہے جو بحیرہ عرب میں واقع ہے۔ عین اسی جگہ تین اہم ٹیکٹونک پلیٹس آکر مل رہی ہیں۔
یہ اٹھائیس نومبر 1945 کی بات ہے جب پسنی اور اورماڑہ کےکچھ علاقوں میں پانی کی اونچی لہریں پیدا ہوئیں جن کی بلندی بارہ سے پندرہ میٹر تک تھی۔ وہ سونامی تھی جو ایم ایس زیڈ میں 8.1 میٹر زلزلے سے بنی تھیں۔
اس سانحے میں مکران کے ساحلوں پر تقریباً چار ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ پانی کی ہولناک لہروں نے ہزاروں مردہ مچھلیوں کو ساحل پر لاکر پٹخ دیا تھا اور کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد علاقے میں ایک جزیرہ نمودار ہوگیا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایم ایس زیڈ میں ہر سو سے ڈیڑھ سوسال کے اندر سونامی پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ اس علاقے میں تین پلیٹیں سرگرم ہیں۔
اسی جگہ 326 قبل مسیح میں سونامی نوٹ کی گئی تھی جو قدیم ترین ریکارڈ ہے جبکہ 1008 اور 1897 میں بھی اس کے ریکارڈ ملتے ہیں۔
ایرانی ماہرین کی جانب سے شائع ایک رپورٹ کے مطابق ایم ایس زیڈ میں اگلے پچاس سال میں زبردست سونامی کا امکان موجود ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہی علاقہ ہے جہاں گوادر اور اس سے ملحق تعمیرات ہورہی ہیں۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس علاقے میں سونامی آتی ہے تو اس سے کراچی بھی متاثر ہوسکتا ہے۔
جی ایس پی اسلام آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر، آصف نذیر رانا نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ مکران کے پورے ساحل پر سونامی کا خطرہ موجود ہے اور اگر 7.5 شدت کا زلزلہ آتا ہے تو اس سے آج کا کراچی شدید متاثر ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ 1945 کے مکران سونامی سے کراچی کے ساحل پر دو میٹر تک اونچی لہریں دیکھی گئی تھیں۔
ساؤتھ ایمپٹن یونیورسٹی ، برطانیہ کی گیما ایل اسمتھ اور ان کے ساتھیوں نے بھی مکران سونامی پر حال ہی میں ایک اہم ریسرچ پیپر شائع کیا ہے۔
اس ٹیم نے سبڈکش زون کا ٹو ڈی تھرمل ماڈل بنایا ہے جس سے ظاہر ہوا ہے کہ کم از کم 350 کلومیٹر کے علاقے میں 8.7 سے 9.2 شدت کا زلزلہ رونما ہوسکتا ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ اس کا دورانیہ ایک سو سے دوسو سال کے اندر ہے۔
دوسری جانب پاکستانی ماہرین یہ کہہ چکے ہیں کہ دوہزارتیرہ کے آواران زلزلوں سے مکران پر مزید دباؤ منتقل ہوگا جو مکران میں زلزلوں کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔
پاکستان میں قدرتی آفات بالخصوص زلزلے کے خطرات منڈلارہے ہیں اور اسی لئے ضرورت ہے کہ ملک گیر سطح پر ایکشن پلان مرتب کئے جائیں جن میں کمیونٹی کی سطح پر عوام کو شریک کرکے قیمتی جانوں کو بچایا جاسکے۔