بلوچستان زلزلہ: ہلاکتوں کی تعداد 515 تک پہنچ گئی

پاک فوج نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ عسکریت پسندوں کے حملوں کے باوجود امدادی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں گی۔

آواران: بلوچستان کے ضلع کیچ اور آواران میں منگل کے روز آنے والے تباہ کن زلزلے میں ہلاکتوں کی تعداد اب 515 ہو گئی ہے اور آواران کے آفت زدہ علاقے میں امدادی ٹیموں کو درپیش سیکورٹی خدشات کے باوجود وفاقی و صوبائی حکومتوں اور آرمی نے مشترکہ طور جمعہ کے روز اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ امدادی کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی-

ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ سرکاری اندازوں کے مطابق، زلزلے سے متعلقہ حادثات میں چھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں-

وفاقی وزراء، اپوزیشن رہنماؤں اور فوج کے اعلیٰ حکام پر مشتمل اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ آواران کا دورہ کرنے والے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے زلزلہ متاثرین کی امداد کے لیے وزیراعظم نواز شریف کی جانب ایک "بلینک چیک" پیش کیا- پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے آواران سے تعلق رکھنے والے بیروزگار انجینئرز اور گریجویٹس کے لیے مالی امداد کے علاوہ پنجاب میں سرکاری نوکریاں دینے کا بھی اعلان کیا-

دوسری جانب سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے زلزلہ کی تباہی متاثر ہونے والوں کی امداد اور انفراسٹرکچر کی تعمیر بحالی کے لیے پانچ کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا-

زلزلے سے تباہی کا اور امدادی کارروائیوں کا جائزہ لینے کے لیے آواران کے دو روزہ دورہ پر آئے ہوئے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان کے چیف سیکرٹری، بابر یعقوب فتح محمد کا کہنا تھا "اب تک ہمارے پاس 515 افراد کی ہلاکت اور چھ سو سے زیاد افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے"- انہوں نے بتایا کہ ہلاکتیں ماشکے، گشکور اور ملار میں ہوئی ہیں-

آواران میں جمعے کے روز بھی ریکٹر اسکیل پر پانچ کی شدت سے آنے والے آفٹر شاکس محسوس کیے گئے- محکمہ موسمیات کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کا مرکز مارا سے نوے کلومیٹر شمال اور دس کلومیٹر گہرائی میں تھا- محکمہ موسمیات اب تک پندرہ آفٹر شاکس ریکارڈ کر چکا ہے-

دوسری جانب ذرائع نے بتایا ہے کہ فرنٹیئر کور کی ایک امدادی ٹیم جب امدادی اور بحالی کے کاموں میں مصروف تھی تو ان پر آواران کے علاقے بازدر میں مسلح افراد نے فائرنگ کر دی- ایف سی کے اہلکاروں کی جانب سے جوابی کارروائی کے نتیجے میں حملہ آور فرار ہو گئے- واقعے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں-

وزیر داخلہ کے ہمراہ آئے ہوئے مذکورہ اعلیٰ سطحی وفد کو، جس میں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما، سید خورشید شاہ، کمانڈر آف سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدل مالک بلوچ بھی شامل تھے، آواران میں جاری امدادی اور بحالی کی سرگرمیوں کے متعلق بریفنگ دی گئی-

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ زلزلے سے متاثرہ آواران اور کیچ اضلاع میں سیکورٹی خدشات کے باوجود، وفاقی و صوبائی حکومت اور فوج امدادی کام جاری رکھیں گے-

انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف نے نیویارک سے فون کر کے امداد اور بحالی کی کارروائیوں کے بارے میں معلومات لیں اور متعلقہ حکّام اور اداروں کو ہدایت کی کہ متاثرہ خاندانوں کی امداد اور بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں-

انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت اس مشکل گھڑی میں اپنے بلوچ بھائیوں اور بہنوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی- انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے متاثرہ خاندانوں کی بحالی کے لیے ایک بلینک چیک بھی دیا ہے-

انہوں نے بتایا کہ امداد اور بحالی کے کاموں میں سول انتظامیہ، فوج اور ایف سی مل کر کام کر رہی ہیں اور تمام متاثرہ افراد کی مدد کی جائے گی- انہوں نے بتایا کہ دورہ کا مقصد بلوچ بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا بھی ہے-

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ کی سربراہی اور وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور وزیر مملکت جام کمال پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کہ امدادی کاروائیوں اور بحالی کے پروگرام کی نگرانی کرے گی۔ انہوں نے مطلع کیا کہ حکومت پنجاب نے متاثرہ افراد کے لیے پندرہ سو خیمے فراہم کر دیے ہیں جبکہ کھانے پینے اور دوسری ضروری اشیاء فراہم کی جا رہی ہیں-

شہباز شریف نے اعلان کیا کہ ضلع آواران سے تعلق رکھنے والے بیروزگار انجینئرز اور گریجویٹس کو پنجاب میں سرکاری نوکریاں دی جائیں گی- ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی ہزاروں بلوچ طلباء صوبہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں- انہوں نے متاثرین کے لیے نقد رقم دینے کا بھی اعلان کیا-

کمانڈر آف سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے بتایا کہ آرمی تمام متاثرہ علاقوں میں پہنچ چکی ہے، سیکورٹی کے خطرات کے باوجود امدادی سرگرمیوں اور ریلیف آپریشن شروع کر دیا ہے- ان کا کہنا تھا کہ زلزلے کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کے گھروں کی تعمیر آرمی کرے گی-

انہوں نے بتایا کہ آرمی ریلیف ٹیم کی ترجیحات میں لوگوں کو رہنے کی جگہ، خوراک اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی شامل ہے- انہوں نے کہا "وفاقی اور صوبائی حکومت کے تعاون سے متاثرین میں ہر فیملی کو خیمے، ایک مہینے کی خوراک اور پانی فراہم کیا جا رہا ہے- اس طرح علاقے کے بلوچ افراد کو یہ محسوس ہو گا کہ یہ ان کی اپنی فوج ہے جو ان کے غم میں برابر کی شریک ہے اور جو اس غم کی شدت کم کرنے کے لیے سنجیدہ اور بھرپور کوششیں کر رہی ہے"-

بلوچستان کے چیف سیکرٹری نے بتایا کہ زلزلے سے متاثرہ پچیس ہزار خاندانوں کو خیمے، خوراک اور دوسری ضروری اشیاء کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور اب تک ان میں سے اٹھارہ ہزار تقسیم کیے جا چکے ہیں جبکہ بقیہ بھی جلد فراہم کر دیے جائیں گے- ضلع آواران میں بجلی کی فراہمی بھی چوبیس گھنٹوں میں بحال کر دی جائے گی- انہوں نے بتایا کہ چونکہ کراچی، کوئٹہ کے مقابلے میں آواران اور کیچ سے قریب ہے لہٰذا امدادی سامان وہیں سے بھیجا جا رہا ہے-

سندھ کے وزیراعلیٰ نے متاثرین کے لیے پانچ کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی امدادی کاموں کے لئے پانچ سو خیمے دینے کا بھی اعلان کیا- ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ جلد ہی مزید امداد بھی فراہم کرے گی-

بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے اس موقع پر مرنے والوں کی تعداد بڑھنے کے خدشے کا بھی اظہار کیا اور قوم سے متاثرہ خاندانوں کی امداد کے لیے امداد دینے کی بھی اپیل کی- انہوں نے بین الاقوامی برادری سے بھی امدادی سرگرمیوں میں حصے لینے کی اپیل کی-

دوسری جانب، جمعے کے روز آرمی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں کے باوجود امداری کارروائیاں جاری رہیں گی-

آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے بتایا "سیکورٹی کی صورتحال یقیناً چیلنج ہے تاہم اس سے امدادی سرگرمیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جو کہ پہلے ہی پوری رفتار سے جاری ہے۔

جمعے کے روز عسکریت پسندوں کی جانب سے ہوئے دو حملوں کے باوجود فوج امدادی کاروائیاں جاری رکھے گی جس کا فیصلہ صوبائی حکومت سے مشاورت کے بعد لیا گیا-

جمعے کے روز ایک آرمی ہیلی کاپٹر حادثے سے بال بال بچا، جب مشکے میں دوران پرواز ایک گولی اس کے روٹر پر لگی تاہم پائلٹ ہیلی کاپٹر کو بحفاظت لینڈ کرنے میں کامیاب رہا اور اس میں سوار تمام افراد بھی محفوظ رہے- ایک دوسرے واقعے میں بزداد میں امدادی کاموں میں مصروف فوجیوں پر عسکریت پسندوں نے حملہ کر دیا-

ایک روز قبل، آواران جاتے ہوئے ایک اور ہیلی کاپٹر پر، جس میں وفاقی وزراء، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ، ایک آرمی کمانڈر سوار تھے، ایک راکٹ فائر کیا گیا تھا جبکہ آواران جانے والی ایک میڈیکل ٹیم پر بھی حملہ ہوا تھا-

ادھر انٹرنیشنل ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ (آئی ایف آر سی) نے ایک بیان میں کہا ہے "نقصان اور بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کا درست اندازہ لگانے میں علاقوں کے دشوار گزار ہونے کے علاوہ سیکورٹی خطرات کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے"-

دوسری جانب ریلیف آپریشن میں مصروف فوجیوں کی تعداد بارہ سو کر دی گئی ہے- خیال کیا جا رہا ہے کہ جمعے کو مزید دو سو اہلکاروں کو اس آپریشن میں شامل کیا گیا ہے جنہیں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ٹیموں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے-

امدادی کاروائیوں میں مدد دینے کے لیے ایک مزید ہیلی کاپٹر بھی شامل کر دیا گیا ہے جس کے بعد آپریشن میں حصہ لینے ہیلی کاپٹروں کی تعداد گیارہ ہو گئی ہے-

پاکستان ایئر فورس بھی ریلیف کے کاموں میں حصّہ لے رہی ہے جبکہ پاکستان نیوی نے بھی اپنے فوکرز اور ہیلی کاپٹرز امدادی کاموں میں معاونت کے لیے دے دیے ہیں-

جنرل باجوہ نے اس تصور کی نفی کی کہ مقامی آبادی آرمی کے خلاف ہے- ان کا اصرار تھا "مقامی افراد خیر مقدم کر رہے ہیں اور لوگوں کو راحت محسوس ہو رہی ہے"-