نقطہ نظر

آئی ایم ایف کا من سلویٰ

کیا دنیا پاکستان سے قطع تعلق کرکے یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ اصلاح کا راستہ اختیار کرے؟

برسہا برس سے ہم ایک گومگوکی کیفیت میں ہیں- دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرگیا پاکستان آئی ایم ایف کی مدد سے مشکل صورت حال سے چھٹکارہ پاتا آرہا ہے-اور بار بار غیر ملکی فنڈ حاصل کرنے کی اس روش نے ملک کے اندرغلط ترغیبات کوجنم دیا ہے حتیٰ کہ اس کی شکل ہی بگڑ گئی ہے-

کچھ عرصہ پہلےکراچی کے ایک بینک کے اعلیٰ افسرسے بات چیت کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بینکوں کی جانب سے نجی شعبہ کو دئے جانے والے قرضوں کی سطح اتنی کم  ہو گئی ہے" نجی شعبے سے قرضے کی درخواست ہی نہیں آتی" انہوں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا-

" لیکن جب میں نے تاجروں سے بات کی تووہ تو کچھ اور ہی کہہ رہے تھے" میں نے انہیں بتایا-" وہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ بینک انہیں اب قرضے دینا ہی نہیں چاہتے کیونکہ گورنمنٹ کو قرض دیکر وہ اپنے  پیسہ کوزیادہ محفوظ بنا سکتے ہیں-"

" یہ بھی سچ ہے "، انہوں نے جواب میں کہا اور پھر تفصیل سے بتایا کہ نجی افراد سے قرضے واپس لینے میں بینکوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے-

یہ لوگ قرضے واپس نہ کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے-  ہمیں علم ہوتا ہے کہ ان کے پاس پیسے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ انکار کرتے ہیں اوراس کی بجائے ہمیں وہ چیز دیتے جو قرضے کی ضمانت کے طورپر رکھی جاتی ہے( Collateral) جو ہم نہیں چاہتے-

اس دوران کچھ اور باتیں بھی ہونے لگیں کیونکہ میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ قرضے دینے کے تعلق سے ان کی سونچ کیا ہے اور پھر میں نے براہ راست سوال کیا کہ " بینک کس صورت میں نجی شعبے کودوبارہ قرضے دینے کی سونچ  سکتا ہے"؟ ان کا جواب تھا " جب معیشت دوبارہ ترقی کریگی"-

" اور یہ کب ہوگا ؟" میں نے معصومیت سے پوچھا-

" بات یہ ہے کہ سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں دس دس سالوں کا چکر چلتا ہے"- دس سال تک ہماری معیشت ترقی کرتی ہے اور اس کے بعد اس میں کمی

آتی ہے- اس کے بعد معیشت دوبارہ سنبھلتی ہے- فی الحال ہماری معیشت سست روی کا شکار ہے- لیکن غیر ملکی زرمبادلہ ملیگا تواس میں پھرسے لازماً تیزی آئیگی اور ہم پھر سے کام میں لگ جائینگے-"

" لیکن قرضوں کی واپسی کا کیا ہوگا جس کا ذکرابھی آپ مجھ سے کر رہے تھے؟" میں نے اصرار کیا-

" اس سے پھرہمیں اس وقت فرق نہیں پڑے گا- "

بارہا مجھے اس قسم کے جوابات سننے کا اتفاق ہوا ہے - مختلف تاجروں سے بات چیت کے دوران میں نے اسی" دس سالہ چکر" کا ذکر سنا- انہوں نے مجھے بتایا کہ ابھی وہ محض اپنا وقت گزار رہے ہیں، نہ تو وہ کوئی نیا کاروبار شروع کر رہے ہیں اور نہ ہی اپنے بزنس کو پھیلارہے ہیں- وہ اس وقت تک سرمایہ کاری بھی نہیں کرینگے جب تک کہ انہیں یقین نہ ہوجائے کہ ترقی کی ہوا چل پڑی ہے- تب ہی تو وہ موقع آتا ہے جب آپ کی  قسمت کھلتی ہے-

بعض وقت میں حیران ہو جاتا ہوں کہ "بیل آؤٹ" ( Bail Out) کے اثرات کتنے گہرے ہوتے ہیں- یہ چیزمعیشت کے ڈی این اے ( DNA) میں شامل کردی جاتی ہے- جو اس حیوانی جذبے کی رہنمائی کرتی ہے جو اس جدید معیشت کوحرکت میں لاتے ہیں یعنی: جذبات-

یہ ہے وہ ساری بات جس کی اس ملک کے وزیرمالیات سے توقع کی جاتی ہے، مخصوص مفادات کا تحفظ اس کے علاوہ ہے- سب سے پہلے تو پاکستان کا وزیر مالیات اس ملک میں سیاسی اشرافیہ اور قرض دینے والے دیگر عالمی اداروں کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے-

اندرون ملک قرض دینے والے ادارے جو بڑے پیمانے پر سرکاری قرضوں کا لین دین کرتے ہیں اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں- ان کے براہ راست تعلقات اقتدار کے مرکز سے پوتے ہیں یعنی جو بھی اس وقت اقتدار میں ہوتا ہے- وزیر مالیات کا ان امور میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا- وہ صرف اتنا ہی کرسکتا ہے کہ ان کے احکامات پر عمل درآمد کرے-

وزیر مالیات کا کام ہے غیرملکی قرض دینے والی مختلف کثیرالطرفہ ایجنسیوں سے معاملات طے کرنا ---- آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اوروہ مضحکہ خیزاے ڈی بی ( ایشین ڈیولپمنٹ بینک) جن کی طویل طویل میٹنگیں ہوتی ہیں جب کارپوریٹ نیٹ ورک سے بہت سے براؤزر (Browser) پورنوگرافی کی ویب سائٹ پر مصروف ہوتے ہیں اور منیلا کو اس کی شکایت کرنی پڑتی ہے-

ملک کے اندرقرض دینے والوں اداروں کو کسی اورمشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے- وہ اسی ملک میں رہتے ہیں- وہ اور ان سے قرض لینے والے اسی فضا میں سانس لیتے ہیں اوراکثروبیشتر ان کے اپنے کاروبار بھی ہوتے ہیں اورانہیں دیگر محاذوں پرحکومت کی ناراضگی کا بھی خطرہ وہتا ہے-

وہ قرض دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرسکتے ہیں- لیکن بہتر یہی ہے کہ وہ حکومت سے بار بار انکار نہ کریں اور یہ بات وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ ایک مشکل کھیل ہے-

لیکن غیر ملکی قرض دینے والے اداروں کے معاملے میں صورت حال بالکل مختلف ہے- اگر حقیقی فیصلہ سازوں سے انہیں ملنے کا موقع مل جائے تو سمجھنا چاہئے کہ وہ خوش قسمت ہیں- جب انکی ملاقاتیں ہوتی ہیں تو یہ محض خانہ پری کے لئے ہوتی ہیں- انہیں شرائط بتا دی جاتی ہیں،انہیں قواعدوضوابط کی پابندی کرنی ہوتی ہے اور فی الحقیقت انہیں وہ تمام باتیں سننی پڑتی ہیں جوکسی نچلے درجے کا سرکاری افسرانہیں بتاتا ہے-

یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب حکومت کے پاس زرمبادلہ کم ہو اور وہ سپر پاور کے سامنے کشکول لئے کھڑے ہوں- تب صورت حال مختلف ہوتی ہے-

لیکن آج کی صورت حا ل یہ ہے کہ پاکستان دنیا بھر کی نظروں میں ہے- ہر کسی کو اس ملک سے پریشانی لاحق ہے --- حتی کہ آئی ایم ایف کو بھی اسٹیٹ بینک کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہنا پڑا کہ وہ افراط زر کا تخمینہ کس طرح لگائے-( یعنی معاملہ اب یہاں تک پہنچ چکا ہے )

آئی ایم ایف کے اعدادو شمار کے مطابق افراط زر میں اضافہ ہورہاہے- لیکن اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار اس کے برعکس ہیں- چنانچہ اگلی میٹنگ تک اس بارے میں بات چیت جاری رہے گی-

تواب آپ کو کیا کرنا ہوگا ؟ کیا دنیا پاکستان سے قطع تعلق کرکے یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ اصلاح کا اعلیٰ راستہ اختیار کرے؟ چند لوگوں نے تو ہمت کرکے یہ بات عوام کے سامنے کہہ دی لیکن کسی میں یہ ہمت نہیں کہ وہ اس کے نتائج پراظہار رائے کریں- کم از کم سب کے سامنے تو نہیں-

تو اب جو بات کہنے کے لئے رہ گئی ہے وہ یہ کہ خوش اسلوبی سے یہ بتایا جائے کہ قرضے کی اقساط کب ملینگی اور کس طرح یا افراط زر کا تخمینہ کرنے کے بارے میں تکنیکی تفصیلات، یہ بتایا جائے کہ کسی کرنسی کو کس وقت غیر مطلوبہ اتار چڑھاؤ کو ختم کرنے کیلئے اور کس وقت شرح مبادلہ میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے-

اب جب کہ ہم من وسلویٰ کے دسترخوان پر دوبارہ بیٹھ چکے ہیں تو پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات پھر شروع ہونے والے ہیں جن میں اصولوں پر پھر اصرار کیا جائیگا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹاسا مسئلہ پڑوسی ملک میں فوجوں کا بھی ہے جو سب سے پہلے توآخری آرٹیکل IV کی رپورٹ سے شروع ہوگا جس میں بہت کچھ ایسا ہے کہ بہت سے موقعوں پرہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جائیگی جب کہ کچھ برس پہلے تک تو انگلیاں اٹھائی جارہی تھیں- اب زوروشور سے یہ کہا جارہا ہے کہ ہر تین ماہ بعد ریویو ہوگا اور میں ان لوگوں میں سے ایک ہونگا جو کسی میگنی فائنگ گلاس کی مدد سےاسے پڑھنے کی کوشش کرینگے-


 ترجمہ: سیدہ صالحہ

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔