پاکستان

جغرافیائی سیاست، سائبر سیکیورٹی کے خطرات کو سنگین بنارہی ہے، ورلڈ اکنامک فورم

جدید ٹیکنالوجیز کا تیزی سے استعمال نئے خطرات اور مسائل پیدا کررہا ہے، مصنوعی ذہانت کا مستقبل میں سائبر سیکیورٹی پر نمایاں اثر ہوگا، رپورٹ

ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی شائع نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سائبر سیکیورٹی چیلنجز میں جغرافیائی سیاست میں رونما سنگین اور پیچیدہ تبدیلیوں کی وجہ سے مزید اضافہ ہوا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ’گلوبل سیکیورٹی آؤٹ لک 2025‘ نے کہا ہے کہ سائبر سیکیورٹی، جغرافیاتی سیاست میں رونما تبدیلیوں کی وجہ سے ناقابل تصور پیچیدہ دور میں داخل ہورہی ہے، یہ سب ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب نئی ٹیکنالوجیز تیزی سے سامنے آرہی ہیں اور خطرات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 60 فیصد اداروں کا کہنا ہے کہ جغرافیائی سیاست کی بدلتی صورتحال ان کی سائبر سیکیورٹی کی منصوبہ بندی پر اثر انداز ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جغرافیائی سیاست کی بگڑتی صورتحال نے خطرات کے حوالے سے بھی لوگوں کے سوچنے کا زاویہ تبدیل کیا ہے۔

دریں اثنا ہر 3 میں سے ایک ادارے کے چیف ایگزیکٹیو افسر (سی ای او) نے سائبر جاسوسی اور حساس معلومات، آئی پی کی چوری کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 45 فیصد سائبر رہنماؤں نے آپریشنز اور کاروباری عمل کے متاثر ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کیا جس میں نت نئی ٹیکنالوجیز کا تیزی سے استعمال کی وجہ سے نئے خطرات اور مسائل کا جنم شامل ہے۔

رپورٹ نے سائبر واقعات کے اداروں کے اہداف اور مقاصد پر اثرات کو کم کرنے کے لیے سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے جدید طریقوں سے آراستہ ہونے کی تجویز بھی دی ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ میں خطرات سے مؤثر طریقے سے نمٹنے اور ان کے سدباب کے لیے وسائل مختص کرنے کے حوالے سے سائبر خطرات کو سماجی معاشی طریقے سے جانچنے پر بھی زور دیا۔

دریں اثنا رپورٹ کے مطابق اضافی قانونی پیچیدگیوں، سپلائی چین میں کمزوریوں اور سائبر مہارت میں بڑھتے ہوئے فاصلے نے اداروں کے محفوظ رہنے میں مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔

رپورٹ نے مزید کہا کہ 66 فیصد ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا مستقبل میں سائبر سیکیورٹی پر نمایاں اثر ہوگا جبکہ 37 فیصد نے آے آئی ٹولز کے نفاذ سے پہلے ان کی سیکیورٹی جانچنے کے لیے طریقہ کار طے کرنے کو اہم قرار دیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 35 فیصد چھوٹے ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی سائبر حملوں کے خلاف مزاحمت ناکافی ہے۔

اسی طرح سائبر حملوں کے سدباب کے خلاف اس تفریق نے علاقائی فرق کو بھی اجاگر کیا ہے، رپورٹ کے مطابق یورپ اور شمالی امریکا میں صرف 15 فیصد اداروں نے ان کے ملک کی بڑے سائبر حملے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے جو افریقہ کی 36 اور لاطینی امریکا کے 42 فیصد کے بالکل برعکس ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے سرکاری شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہے جس میں 38 فیصد جواب دہندگان نے سائبر حملوں کے سدباب کے لیے نامناسب صلاحیت کے حوالے سے بتایا جبکہ اسی کے مقابلے میں نجی اداروں کی تعداد 10 فیصد ہے۔

یہ تفریق سائبر اسٹاف میں بھی موجود ہے، رپورٹ میں 49 فیصد نجی اداروں نے سائبر سیکیورٹی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری افراد کی کمی کے حوالے سے بھی بتایا ہے۔