سیاسی قیادت کا عسکری قیادت پر افغانستان کےساتھ مسائل کے حل کیلئے مذاکرات پر زور
ملک کی سیاسی قیادت نے فوجی قیادت پر پاکستان کے داخلی سلامتی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے افغانستان کے ساتھ بات چیت کرنے پر زور دیا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے تقریباً 4 گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی قیادت نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) پر مکمل عملدرآمد چاہتی ہے، جب کہ ضرورت پڑنے پر کچھ تبدیلیاں کرنے کے لیے منصوبے پر نظر ثانی کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی) کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
انہوں نے وضاحت کی کہ تمام شرکا کی رائے رہی کہ ہمسایہ ممالک کے درمیان تعاون خطے میں امن لانے میں مدد دے سکتا ہے، تاہم آرمی چیف نے نشاندہی کی کہ افغان عبوری حکمران ماضی میں بار بار وارننگ پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ آرمی چیف نے عبوری افغان حکومت کے ساتھ رسمی یا غیر رسمی بات چیت کا مطالبہ کرنے والوں سے کہا کہ وہ ہماری بات نہیں سنتے، اس کے بعد سیاسی رہنماؤں نے فوجی قیادت کو مشورہ دیا کہ وہ معاملات کو حل کرنے کے لیے افغان عبوری حکومت کے ساتھ ’رابطے کے لیے دیگر طریقے‘ استعمال کرے۔
ذرائع نے بتایا کہ عسکری قیادت نے یہ واضح کیا ہے کہ کوئی نیا فوجی آپریشن نہیں کیا جا رہا ہے، اور ’انہیں‘ خیبر پختونخوا میں صورتحال کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی، انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز کو تیز کیا جائے گا، فوج نے سیاسی جماعتوں سے بھی رائے طلب کی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران صوبائی پولیس فورس کی استعداد کار بڑھانے سمیت متعدد دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ آرمی چیف نے مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے صوبائی سیاست دانوں سے بات چیت کی، شرکا نے عسکریت پسندی کے خلاف ایک سیاسی آواز اور عوامی حمایت کی ضرورت پر اتفاق کیا۔
ایک علیحدہ اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو موجودہ سیکیورٹی صورتحال اور صوبے میں جاری انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے بارے میں جامع بریفنگ دی گئی۔