دشمن پرندے، سیسہ پلائی دیوار اور جنوبی کورین جہاز
کچھ پرندوں کی برادریاں اب تک یہ بات قبول نہیں کر سکی ہیں کہ انسان ان کی برابری کرے۔ جب رائٹ برادران نے پہلی کامیاب پرواز کی تو پاس ہی بیٹھے کسی پرندے نے کہا تھا،
’واہ بھئی واہ، ہن تساں ای ساڈی برابری کریسو‘
آگے کچھ نازیبا الفاظ تھے جو بوجوہ حذف کر دیے گئے ہیں۔ خیر پرندوں نے بھی خوب اونچی اڑان بھرنا شروع کر دی ہیں اور جہاں بھی موقع ملتا ہے، ان کے جوان جہاز کے انجن میں گھس کر اسے تباہ کر دیتے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرنے سے خود بھی وہ بھنے ہوئے قیمے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں لیکن اپنا ’مقصد‘ نہیں بھولتے۔
دنیا میں اکثر ہوائی اڈوں پر جہاں پرندوں کے منڈلانے کا خطرہ زیادہ ہو وہاں اقدامات کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں رن وے سے دور رکھا جا سکے۔ کہیں ہوائی فائر کیے جاتے ہیں تو کہیں تیز آواز پیدا کرنے والی مشینوں سے کام لیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں رن وے کے پاس کالونیاں بناتے ہیں تاکہ پرندے نہ آئیں۔
لیکن پرندوں نے ہار نہیں مانی۔ ان کے بڑوں نے گدھ اور مرغابی برادری کو چنا اور انہیں تربیت دینی شروع کی۔ گدھ برادری کے ایک قبیلے نے ’جوان-پرندی‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاص ترقی کی۔ اس کا نام روپل ہے اور یہ افریقی نسل ہے۔ یہ گدھ کا بچہ 37 ہزار 100 فٹ تک پرواز کرتا پایا گیا ہے جبکہ اس کے پروں کا حجم 9 فٹ تک ہوتا ہے۔
1973ء میں اس نے آئیوری کوسٹ کے اوپر پرواز کرتے ہوئے ایتھوپیئن ائیرلائنز کے بوئنگ 747 کو نشانہ بنایا اور 2010ء میں بھی ایک واردات کی۔ دونوں جہاز بہ حفاظت زمین پر اتار لیے گئے اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
یہ نسل اب معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے لیکن انسان بھی عجیب ’سینٹی‘ نسل ہے جو اب بھی اس گدھ کی نسل کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مرغابیوں نے بھی اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اندازہ کریں کہ 1990ء سے 2013ء کے درمیان انہوں نے صرف امریکا میں ہی چُن چُن کر ایک ہزار 400 حملے کر ڈالے ہیں۔ ان میں سب سے منظم تنظیم کینیڈا کی مرغابیوں کی ہے۔ یہ حلال زادیاں ٹیک آف اور لینڈنگ کے وقت گھات لگائے بیٹھی ہوتی ہیں اور سیدھا جا کر جہاز کے انجن میں وج جاتی ہیں۔ ایک ’نعرہ قیں‘ بلند ہوتا ہے اور پورا جُھنڈ قیں قیں کرتا ہوا جہاز کے انجنز میں گھس کر انہیں ’جَھنڈ‘ کر جاتا ہے۔
اس کی مشہور مثال دریائے ہڈسن، نیویارک میں 2009ء میں اترنے والا جہاز ہے۔ یہ تو اس پرواز کی خوش قسمتی تھی کہ اس پر چیسلی سالن برجر جیسا مشاق پائلٹ موجود تھا اور قریب ہی دریا بھی تھا۔
ایئر بس 320 جہاز اوسطاً 275 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹیک آف کرتا ہے۔ اس رفتار پر اگر کوئی چڑیا بھی جہاز سے ٹکرا جائے تو گولی کی طرح جہاز کی باڈی توڑ کر نکل جاتی ہے۔ کینیڈین مرغابیوں کے اس جرأت مندانہ حملے پر فلم بھی بنی ہے جس کا نام ’Sully‘ ہے۔
تازہ ترین واقعہ 29 دسمبر 2024ء کو پیش آیا کہ جب ایک پرواز جنوبی کوریا کے ہوائی اڈے موآن پر لینڈنگ کے دوران حادثے کا شکار ہوئی جو 179 جانیں لے گیا۔ اس بار یہ واردات ’کرین‘ نامی پرندوں نے کی۔ وہ دو تھے اور جہاز اکیلا تھا۔ دونوں انجن تباہ ہوگئے تو کپتان نے کسی نہ کسی طرح جہاز قابو کر کے زمین پر اتار لیا۔ جہاز کے لینڈنگ گیئر یعنی ٹائر باہر نہیں نکل سکے اور جہاز کو پیٹ کے بل یعنی ’Belly Landing‘ کرکے اتارنا پڑا۔ ایسی صورت حال میں جہاز کے بچ جانے کا امکان ہوتا ہے لیکن جہاز تباہ ہوگیا کیونکہ رن وے کے آخر میں کنکریٹ کی ایک دیوار موجود تھی جس سے ٹکرا کر جہاز پاش پاش ہوگیا۔
ہم آج کل ریلز دیکھتے ہیں جن میں 20 سے لے کر 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑیاں آپس میں ٹکرانے کے مناظر دکھا کر بتایا جاتا ہے کہ اس رفتار سے حادثہ پیش آ جائے تو کتنا نقصان ہوسکتا ہے۔
اندازہ کریں کہ جنوبی کوریا کا جہاز 260 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اس دیوار سے ٹکرایا تھا۔ ٹائروں کی بریک نہیں تھی۔ صرف جہاز کے پروں پر موجود ائیر بریک لگ سکتی تھی کیونکہ انجن فیل تھے اور ان کو تھرسٹ ریورس یعنی واپس گھمانا بھی ممکن نہ تھا۔ اگر وہ دیوار نہ ہوتی تو صورت حال کچھ اور ہوتی۔ کیا معلوم سب مسافر بچ جاتے یا اموات کم سے کم ہوتیں۔
سوال یہ ہے کہ وہ دیوار آخر وہاں تھی ہی کیوں؟ ہوائی اڈے کے حکام نے ابتدائی بیان دیا کہ یہ دیوار اس لیے بنائی گئی تھی تاکہ ایسی کسی صورت حال میں جہاز کو آبادی تک جانے سے روکا جا سکے۔
بعدازاں تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ آئی ایل ایس سسٹم کا اینٹینا اس دیوار پر نصب تھا۔ آئی ایل ایس یعنی انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم، یہ ایسے آلات پر مشتمل ہوتا ہے جو شدید بارش، برف باری اور دھند کے موسم میں جہاز کو بہ حفاظت رن وے پر آنے کا راستہ دکھاتے ہیں۔ آسانی کے لیے آپ اپنے موبائل کے بلیو ٹوتھ کنکشن کی مثال لے سکتے ہیں جس طرح وہ ڈیٹا کو راستہ دکھا کر ایک موبائل سے دوسرے موبائل میں ٹرانسفر کر دیتا ہے۔
سوال یہ بھی اٹھایا گیا کہ کیا اس سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے علاوہ ایسا کوئی حل نہ تھا کہ جس سے جہاز کو بھی بچایا جا سکتا؟ ایسا ممکن تھا اگر یہ دیوار کنکریٹ کے بجائے کسی ہلکے مواد سے بنی ہوتی جو ٹوٹ جاتی لیکن جہاز رک جاتا۔
ماہرین کے مطابق پائلٹ نے بہترین طریقے سے جہاز کو پیٹ کے بل اتارا تھا۔ آئی ایل ایس سسٹم کا یہ اینٹینا اس ہلکے مواد سے بنی ہوئی دیوار پر بھی نصب کیا جا سکتا تھا بلکہ کوئی اونچا ٹاور بنا کر بھی لگایا جا سکتا تھا۔
بہرحال موآن ہوائی اڈے پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا ہے اور اس کے ڈائریکٹر مستعفی ہوچکے ہیں لیکن جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا۔ جنوبی کوریا کے بقیہ ہوائی اڈوں کی نئے سرے سے جانچ کی گئی ہے اور ایسی تمام دیواروں کو ہٹا دیا گیا ہے جو اس قسم کے حادثے کی صورت میں مزید جان لیوا ثابت ہوسکتی ہیں۔
خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔