پاکستان

’بہت ہو گیا‘، عاصمہ شیرازی کی خاتون صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کی مہم کی مذمت

سیاسی جماعتیں کچھ عرصے سے خواتین صحافیوں کو ہراساں کرنے کی مہم چلا رہی ہیں، ڈی آر ایف کی درخواست سے ظاہر ہوتا ہے اس طرح کی مہم کو اب برداشت نہیں کیا جائے گا، سینئر صحافی

سینئر صحافی عاصمہ شیرازی نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے خواتین صحافیوں کو مسلسل ہراساں کیے جانے کی منظم مہم کے خاتمے کے لیے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی پٹیشن کی حمایت کرتے ہوئے ہراسانی مہم کی مذمت کی اور کہا کہ بس بہت ہوگیا۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی پٹیشن پر اب تک پرنٹ، ٹیلی ویژن اور ڈیجیٹل میڈیا کی 60 سے زیادہ شخصیات دستخط کر چکی ہیں۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات چیت کرتے ہوئے عاصمہ شیرازی نے کہا کہ سیاسی جماعتیں کچھ عرصے سے خواتین صحافیوں کو ہراساں کرنے کی مہم چلا رہی ہیں، ڈی آر ایف کی درخواست سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کی مہمات کو اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے کئی بار نشانہ بنایا گیا ہے، مجھے دوسروں کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے مہم کا موضوع بنایا گیا۔

خاتون صحافی نے مزید کہا کہ ایک سیاسی جماعت کی کور کمیٹی کے رکن نے یہ مہم یو ٹیوب چینل کے ذریعے چلائی اور ویڈیو کے تھمب نیلز میں خواتین صحافیوں کی نازیبا تصاویر استعمال کی گئیں۔

عاصمہ شیرازی نے کہا کہ وہ شِخص پارٹی سے الگ نہیں ہے اور نہ ہی پارٹی نے اس شخص سے اظہار لا تعلقی کیا۔

وہ خواتین کی تصویریں لگاتا ہے اور ڈالر کمانے کے لیے بیہودہ تھمب نیل استعمال کرتا ہے۔ یقیناً اس بارے میں بڑی تشویش ہے

عاصمہ شیرازی نے اس شخص کی پارٹی اور شخص کا نام نہیں لیا۔

عاصمہ شیرازی نے کہا ایکس اور فیس بک پر پھیلائے جانے والے یک طرفہ پروپیگنڈے کے بارے میں خواتین صحافیوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے، ہراساں کیا جانا عام بات ہے، اسی لیے میں نے اس مسئلے کو اٹھایا، ہمیں اس بات کو اجاگر کرنے اور سوال اٹھانے کی ضرورت ہے کہ خواتین صحافیوں کے علاوہ مرد صحافیوں کے خلاف بھی یہ یک طرفہ مہم کب تک جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ڈی آر ایف نے اس اقدام میں پہل کی ہے اور ہراساں کیے جانے کا خاتمہ اس کی بنیادی توجہ کا مرکز ہے۔

اس سے قبل عاصمہ شیرازی نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم پر ایکس پر جاری بیان میں ٹارگٹڈ ہراساں کیے جانے کی مذمت کی۔

انہوں نے کولیشن فار ویمن ان جرنلزم (سی ڈبلیو جے) کی ایک پوسٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ خواتین ہمیشہ ایک سافٹ ٹارگٹ ہوتی ہیں اور انہیں طویل عرصے سے ہراساں کیا جاتا رہا ہے لیکن ہم نے خاموش رہنے سے انکار کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سچائی کے لیے ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنی آواز اٹھاتے رہیں گے، چاہے کوئی بھی قیمت کیوں نہ ہو۔

’صنفی بنیاد پر گمراہ کن معلومات کی مہم‘

دوسری جانب جمعہ کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں نیٹ ورک آف وومن جرنلسٹس فار ڈیجیٹل رائٹس (این ڈبلیو جے ڈی آر) نے عاصمہ شیرازی کے خلاف صنفی بنیادپ پر گمراہ کن معلومات کی مہم چلانے کی شدید مذمت کی۔

پریس ریلیز کے مطابق، عاصمہ شیرازی کو نمایاں سیاسی جماعتوں کے حامیوں، سیاسی تجزیہ کاروں اور بلاگرز نے نشانہ بنایا۔

اس پریس ریلیز میں بھی اس سیاسی جماعت کا نام نہیں لیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ بہت بڑی تعداد میں فالوورز رکھنے والے آن لائن ٹرولز اور سیاسی مبصرین کی جانب سے عاصمہ شیرازی کو ہراساں کرنے والے گھٹیا تبصرے بے بنیاد ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ ہم سیاسی جماعتوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ خواتین صحافیوں کو نشانہ بنانے میں ملوث افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کریں اور باضابطہ طور پر ان ٹرولز کی سرگرمیوں سے اظہار لا تعلقی کریں۔

ڈی آر ایف کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پریس ریلیز میں کہا گیا کہ فروری میں عام انتخابات کی کوریج کے دوران بھی خواتین صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل دسمبر 2024 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سینئر صحافی عاصمہ شیرازی کے خلاف غلط خبر نشر کرنے پر نجی چینل ’اے آر وائی نیوز‘ کو معافی نشر کرنے اور 50 ہزار روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹس کے 21 دسمبر 2022 کے فیصلے کے خلاف سینئر صحافی عاصمہ شیرازی کی اپیل منظور کرتے ہوئے 14 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ اپیل کنندہ کے مطابق اے آر وائی نیوز نے ازخود نوٹس کیس کی عدالتی کارروائی نشر کرتے ہوئے تصویر اور نام چلا کر ناظرین کو یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ ججز نے صحافی عاصمہ شیرازی کی صحافت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف ریمارکس دیے جبکہ حقیقت میں عدالت میں اپیل کنندہ کا کوئی ذکر نہیں ہوا تھا۔

یاد رہے کہ نجی چینل نے 19 اور 20 جنوری 2022 کو متعدد بار یہ خبر نشر کی تھی جس کے خلاف پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹس کو درخواست دی گئی، جو یہ کہہ مسترد کردی گئی تھی کہ درخواست گزار کے پاس ہرجانے کا دعویٰ دائر کرنے کے لیے فورم موجود ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ پیمرا قانون کے تحت چینلز کی ذمہ داری ہے کہ خبر کو درست انداز میں نشر کیا جائے، پیمرا آرڈیننس کے تحت کسی کے خلاف غلط، ہراسانی پر مبنی، ہتک آمیز خبر نہیں چلائی جا سکتی۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ غلط خبر کی وضاحت کے لیے ’اے آر وائی نیوز‘ معافی نشر کرے اور صحافی عاصمہ شیرازی کو 50 ہزار روپے ہرجانے کی ادائیگی کرے، جبکہ عاصمہ شیرازی چاہیں تو چینل کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ بھی دائر کر سکتی ہیں۔