نقطہ نظر

اسموگ سے تدارک تک: کیا پاکستان فضائی آلودگی سے نمٹنے میں کامیاب ہوپائے گا؟

فصلوں کی باقیات جلانے سے لے کر اسموگ تک، فضائی آلودگی کا بحران مستقبل کے لیے خطرہ ہے جس سے نمٹنے کا واحد راستہ جرات مندانہ تبدیلیاں اور مربوط موسمیاتی سفارت کاری ہے۔

سال 2024ء میں فضائی آلودگی کے ساتھ پاکستان کی جنگ شدت اختیار کرچکی ہے۔ اسموگ کے بادل اتنے گہرے ہوچکے ہیں کہ اس نے پاکستان کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ یہ مسئلہ عالمی سرخیوں میں آچکا ہے جبکہ اس نے انسانی صحت عامہ سے متعلق سنگین خطرے کی نشاندہی کی ہے۔

ایئر کوالٹی لائف انڈیکس 2024ء کی رپورٹ میں سامنے آیا کہ پاکستان میں ہر شہری نائٹرس تقریباً 2.5 پارٹیکل میٹر (پی ایم) یعنی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، اوزون اور سلفر ڈائی آکسائیڈ جیسے خطرناک آلودگیوں سے بھری فضا میں سانس لیتا ہے۔

24 کروڑ آبادی کے ساتھ پاکستان دنیا کا دوسرا آلودہ ترین ملک ہے۔ 2.5 پارٹیکل میٹر کی سطح عالمی ادارہ صحت کی جانب سے مختص محفوظ حد سے 14 گنا زیادہ ہے۔ اسٹیٹ آف گلوبل ایئر رپورٹ 2024ء میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں اوزون کی آلودگی میں 10 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جو 2020ء میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔

12 کروڑ 70 لاکھ کی آبادی والے صوبہ پنجاب بالخصوص لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس ایک ہزار سے تجاوز کرچکا ہے جوکہ عالمی ادارہ صحت کی مختص کردہ حد سے 71.1 گنا زیادہ ہے۔ ملتان میں اس سے بھی زیادہ خراب صورت حال دیکھی گئی جہاں پارٹیکل میٹر 2.5 کی سطح محفوظ حد سے 110 گنا زیادہ رہی۔

اقوام متحدہ نے رپورٹ کیا کہ آلودگی کی وجہ سے 18 لاکھ شہریوں کو طبی امداد کی ضرورت ہے جبکہ ایک کروڑ 10 لاکھ بچوں کو اسموگ کی وجہ سے صحت کے مسائل لاحق ہونے کا خطرہ ہے۔ پنجاب کے ہسپتال سانس لینے میں دشواری، دمہ اور دل کے مسائل میں مبتلا مریضوں سے بھر چکے ہیں۔

ہوا کا خراب معیار اوسط عمر میں تین سال سے زیادہ کم کر دیتا ہے جبکہ بہت زیادہ آلودہ علاقوں میں یہ پانچ سال تک کم بھی ہوسکتی ہے۔ کم عمری میں آلودہ ہوا میں سانس لینے سے صحت کے مسائل جیسے قبل از وقت پیدائش، پھیپھڑوں میں انفیکشن، نشوونما رک جانا، کینسر اور بچوں میں دماغی نشوونما کے مسائل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں نوزائیدہ بچوں کی 30 فیصد اموات، فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ زیادہ دیر خراب فضا میں سانس لینا ہر عمر کے افراد کے لیے خطرناک ہے کیونکہ اس سے دماغ اور اعصاب میں خرابی، دل کی بیماریاں، تولیدی مسائل اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فضائی آلودگی کے اثرات صرف صحت عامہ میں نمایاں نہیں ہوتے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ خراب فضا کی وجہ سے پاکستان کی سالانہ آمدنی (جی ڈی پی) کا 7 فیصد خرچ ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ لوگ صحت پر زیادہ خرچ کرتے ہیں اور قبل از وقت مر جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملک کی آمدنی کم ہوتی ہے اور معاشی شرح نمو سست پڑ جاتی ہے۔ فضائی آلودگی کاشتکاری کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق ایشیا میں تقریباً 2.6 ارب لوگ جو کاشتکاری پر انحصار کرتے ہیں، فضائی آلودگی سے متاثر ہیں۔ ایک اور وجہ اوزون آلودگی بھی ہے جس کی وجہ سے چاول اور گندم جیسی اہم فصلوں کو سالانہ تقریباً 11 کروڑ ٹن کا نقصان ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں اسموگ پورے سال کا مسئلہ ہے لیکن یہ موسم سرما میں زیادہ بڑھ جاتی ہے بالخصوص گنگا ہند کے ممالک میں اسموگ میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے جن میں پاکستان، بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ اس دوران ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے آلودگی زمین کے قریب مقیط ہوجاتی ہے جبکہ فصلوں کی باقیات کو جلانے سے آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ تمام عناصر مضر فضا کا باعث بنتے ہیں جو ہفتوں تک برقرار رہ سکتی ہے جبکہ اس سے صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

2024ء میں میڈیا کوریج اور قومی اعداد و شمار کی رپورٹس میں سامنے آیا کہ پنجاب نے اسموگ سے نمٹنے کے لیے بنیادی طور پر نقل و حمل، فیکٹریوں کے اخراج اور کاشتکاری کے لیے مختصر مدت کے قوانین پر توجہ مرکوز کی۔ کاربن اور پارٹیکل میٹر 2.5 کی سطحوں کو ٹریک کرنے پر زور دیا گیا لیکن یہ اقدامات کچھ اہم سائنسی زاویوں کا احاطہ نہیں کرتے۔

اگرچہ پاکستان میں حکام پارٹیکل میٹر 2.5 پر توجہ دیتے ہیں لیکن دیگر نقصان دہ آلودگی جیسے نائٹرس آکسائیڈ، میتھین، بلیک کاربن اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ بہت طاقتور آلودہ مواد ہوتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں گلوبل وارمنگ میں زیادہ حصہ ڈالتے ہیں۔

نائٹرس آکسائیڈ اور فصلوں کی باقیات چلانا

باکو میں کوپ 29 میں جاری کیا گیا اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کا گلوبل نائٹرس آکسائیڈ اسسمنٹ 2024ء ، نائٹرس آکسائیڈ کے بڑھتے ہوئے خطرے سے متعلق خبردار کرتا ہے۔ جب گلوبل وارمنگ کی بات آتی ہے تو یہ گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 270 گنا زیادہ نقصان دہ ہے اور صنعتی انقلاب کے بعد سے گلوبل وارمنگ میں 10 فیصد کردار ادا کررہی ہے۔ اس کے اثرات یہیں ختم نہیں ہوتے بلکہ نائٹرس آکسائیڈ 120 سال تک فضا میں موجود رہتی ہے جس سے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچتا ہے اور فضائی آلودگی کی صورت حال مزید خراب ہوتی ہے۔

نائٹرس آکسائیڈ کا تقریباً 20 فیصد اخراج بائیو ماس جلانے، فوسل فیول استعمال کرنے اور گندے پانی کے استعمال سے ہوتا ہے۔ اگر ہم ان اخراج کو کم کر سکتے ہیں تو ہم ہوا کے معیار کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ ممکنہ طور پر 2050ء تک 2 کروڑ افراد کو قبل از وقت مرنے سے روک سکتے ہیں۔

جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو تشخیص بتاتی کہ زراعت فضائی آلودگی میں بڑا حصہ ڈالتی ہے۔ ملک میں نائٹرس آکسائیڈ کے اخراج کا تقریباً 75 فیصد حصہ کاشتکاری سے آتا ہے جس کی بنیادی وجہ مصنوعی کھاد اور کھاد کا زیادہ استعمال ہے۔

کاشتکاری کے طریقوں سے امونیا اور نائٹروجن آکسائیڈ خارج ہوتے ہیں جوکہ نقصان دہ گیسز کے بخارات (ایروسول) بناتے ہیں اور فضا میں مل جاتے ہیں جس سے آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اضافی نائٹروجن پانی میں بہانے سے، پانی کا معیار خراب ہوتا ہے جبکہ یہ آبی حیات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پاکستان میں جاری اسموگ کا مسئلہ بنیادی طور پر فصلوں کی باقیات کو جلانے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ زراعت، ہوا کا معیار اور صحت عامہ کا کس طرح آپس میں گہرا تعلق ہے۔

UNEP کے نتائج پاکستان میں سنگین ماحولیاتی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔ پنجاب کلین ایئر پالیسی کے مطابق 2002ء سے 2020ء تک لاہور میں ہوا میں نقصان دہ ذرات کی مقدار میں 25 فیصد اور ملتان میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ سطح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس آلودگی کی ایک بڑی وجہ کاشتکاری میں نائٹروجن پر مبنی کھادوں کا بہت زیادہ استعمال ہے۔ یہ کھادیں نہ صرف فضا کے معیار کو کم کرتی ہیں بلکہ پانی کے ذرائع کو بھی آلودہ کرتی ہیں۔ یہ تمام عناصر نقصان دہ ایروسول کی تخلیق میں حصہ ڈالتے ہیں۔

امریکی خلائی ادارے ناسا نے 32 ہزار سے زائد ہاٹ اسپاٹ تلاش کیے ہیں جہاں کسان فصلوں کی باقیات کو جلاتے ہیں۔ ان میں سے 15ہزار صرف پنجاب پاکستان میں ہیں۔ یہ نقصان دہ ذرات، یا ایروسول، دور تک فضا میں سفر کر سکتے ہیں اور خاص طور پر سردیوں کے اسموگ کے موسم میں لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں کی فضا کو متاثر کر سکتے ہیں۔ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ جیسی گیسز خارج کرتے ہیں جو زمینی سطح پر اوزون بنانے میں مدد دیتے ہیں جبکہ نائٹرس آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسز کی مقدار میں اضافہ کرتے ہیں۔

چاول کی برآمدات کی طلب میں اضافے کے باوجود، پاکستان اپنی مٹی کے مناسب انتظام یا ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کیے بغیر ہی چاول کی کاشت کو بڑھا رہا ہے۔ کھیتی باڑی کے ناقص طریقوں اور آب و ہوا کی کمزور پالیسیز نے ملک بھر میں صحت کے مزید مسائل، زیادہ بیماریوں اور صحت عامہ کے بڑھتے ہوئے اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔

ایک حالیہ بیان میں پنجاب کے سیکرٹری زراعت افتخار علی ساہو نے بتایا کہ 10 نومبر 2024ء تک، پنجاب میں چاول کے بھوسے کو جلانے کے ایک ہزار 289 واقعات رپورٹ ہوئے جس سے ایک ہزار 700 ایکڑ رقبہ متاثر ہوا۔ ان واقعات کے خلاف 196 ایف آئی آر درج کی گئیں جبکہ ایک کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کے جرمانے بھی عائد کیے گئے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے محکمہ نے 22 اینٹی-اسموگ ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو کسانوں کی رہنمائی کرتی ہیں اور فصلوں کو جلانے کے بجائے، ان سے نمٹنے میں مدد کرتی ہیں۔

تاہم شیخوپورہ کے دورے کے دوران فصلوں کو بڑے پیمانے پر جلانے کا عمل دیکھا گیا۔ مقامی رہائشی تیمور سرمد نے دعویٰ کیا کہ وہ لاعلم تھے کہا اس اقدام سے ان پر جرمانہ عائد ہوسکتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بہت سے مقامی اس عمل کے مضر صحت ہونے کے حوالے سے آگاہ نہیں۔

جلنے سے اٹھنے والے دھوئیں کے باعث لاہور میں دو ہفتوں تک شدید اسموگ چھائی رہی جس سے یہ دنیا کا آلودہ ترین شہر بن گیا۔ یہ وہی وقت تھا جب صحت کے اخراجات تین گنا تک بڑھ گئے جبکہ شہروں اور دیہی علاقوں کے ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ایمیشنز گیپ رپورٹ میں سامنے آیا کہ 2023ء میں مختلف شعبہ جات سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج 57.1 گیگاٹن کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا تھا۔ گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے رکھنے کے لیے 2030ء تک اخراج میں 42 فیصد کمی کی ضرورت ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے، اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سرمایہ کاری میں چھ گنا اضافے کی ضرورت ہوگی۔

رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ اگرچہ عالمی اخراج کرنے والے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں فی شخص کم اخراج ہے لیکن آبادی میں تیزی سے اضافہ، توانائی، زراعت اور زمین کے استعمال کے شعبوں کی وجہ سے پاکستان کے کل اخراج میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کے بڑھتے ہوئے فضائی آلودگی کے مسئلے کے لیے فوری اور مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے جبکہ اس مسئلے کے لیے ایسے حل تلاش کیے جانے چاہئیں جو فوری اور طویل مدتی دونوں ضروریات کو پورا کریں۔

موسمیاتی سفارت کاری

فضائی آلودگی کے سنگین بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور بھارت کو موسمیاتی سفارت کاری پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فصلوں کی باقیات جلانے اور فضائی آلودگی دونوں ممالک کی صحت اور ماحولیات کو متاثر کرتی ہے۔ انہیں مشترکہ طور پر ہوا کے معیار کی نگرانی، اعداد و شمار اور معلومات کا اشتراک، پائیدار کاشتکاری کے طریقوں کی حوصلہ افزائی اور اخراج کو کم کرنے کے لیے مشترکہ پالیسیز بنانے جیسے شعبہ جات میں تعاون کرنا چاہیے۔

دونوں حکومتیں مالیاتی اداروں کے ساتھ مالیاتی نظام قائم کرنے میں بھی تعاون کر سکتی ہیں جو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو زراعت میں زیادہ پائیدار طریقوں کی طرف منتقل کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ اپنے مشترکہ مفادات اور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے، بھارت اور پاکستان فضائی آلودگی کے مسئلے کے لیے ایک مشترکہ نقطہ نظر پیدا کرسکتے ہیں، صحت عامہ کو بہتر بنا سکتے ہیں اور ہوا کے خراب معیار سے پیدا ہونے والے معاشی اخراجات کو کم کرسکتے ہیں۔

کاشتکاروں کے لیے پائیدار زرعی طریقہ کار متعارف

اگرچہ زرعی نظام عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسز کے ایک تہائی اخراج کے ذمہ دار ہیں لیکن وہ صرف 4 فیصد کلائمیٹ فنانس حاصل کرتے ہیں جبکہ اس 4 فیصد کا بھی صرف 20 فیصد یعنی پانچواں حصہ چھوٹے کسانوں کو ملتا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے زراعت اور ماحولیات کے محکموں کو موسمیاتی اسمارٹ فارمنگ ٹیکنالوجیز کو فروغ دینے کے لیے عالمی بہترین طریقوں پر عمل کرنا چاہیے۔ اس میں کسانوں کو تعلیم دینا، مالی مراعات کی پیشکش کرنا اور اخراج کو کم کرنے اور فصلوں کی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے کمیونٹی پر مبنی منصوبے شامل ہونے چاہئیں۔

مثال کے طور پر برازیل میں، کسانوں کی تعاون تنظیمیں، سکھانے اور مشترکہ سرمایہ کاری کے ذریعے کسانوں کو درست آب پاشی اور بائیو بیسڈ کھاد جیسی ٹیکنالوجیز کو اپنانے میں مدد کرتی ہے۔ بھارت کا پائیدار زراعت کا قومی مشن (این ایم ایس اے) آب و ہوا کے لیے لچکدار کاشتکاری کے طریقوں جیسے صفر کھیتی اور زرعی جنگلات کی تربیت فراہم کرتا ہے۔ کاشتکار سوائل ہیلتھ کارڈز اور موسم پر منحصر فصلوں کی انشورنس کا استعمال سیکھتے ہیں تاکہ پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اخراج کو بھی کم کیا جا سکے۔

بائیوچار پروڈکشن اور ملچنگ جیسی فصلوں کی باقیات کے انتظام کی جدید ٹیکنالوجیز کے لیے مالی مراعات، سبسڈیز اور گرانٹس فراہم کرنے کے لیے پبلک پرائیویٹ شراکت داری کی فوری ضرورت ہے۔ یہ اختراعات فصلوں کے فضلے کو مفید مصنوعات میں ری سائیکل کرنے میں مدد کرتی ہیں جس سے فصلیں جلانے جیسے نقصان دہ عوامل میں کمی واقع ہوتی ہے۔

وفاقی سطح پر شعبہ جات میں تعاون کی ضرورت

وفاقی سطح پر ٹھوس شواہد کی بنیاد پر موسمیات کے حوالے سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آلات کا استعمال کرنا جن سے اخراج کا پتا لگایا جاسکے (کہ کتنی آلودگی خارج ہوئی)، موسمیاتی منصوبوں کے لیے مالی معاونت جبکہ ایسے نظام جو سخت نگرانی اور قوانین کو نافذ کرتے ہوں۔ یہ عوامل بالخصوص کاشتکاری میں کلین ٹیکنالوجیز میں مدد کرتے ہیں۔ صوبوں اور مختلف وزارتوں سمیت پوری حکومت کو ایک مربوط طریقے سے فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

گورننس ماڈل میں ماہرین کے مشورے اور جدید ترین سائنسی معلومات کو شامل ہونا چاہیے تاکہ فضائی آلودگی کی حکمت عملیوں کو اختراعات کے ساتھ اپ ڈیٹ رکھا جاسکے۔ ’یک ماحول گورننس‘ کے نقطہ نظر کو فروغ دینا ضروری ہے جہاں ماحولیات، زراعت، ٹرانسپورٹ، جنگلات اور آب پاشی جیسے محکمے صوبائی سطح پر مل کر کام کرتے ہیں۔

یہ نقطہ نظر فضائی آلودگی پر قابو پانے کے منصوبوں اور مربوط پالیسیز بنانے میں مدد کرتا ہے جبکہ مؤثر اور جامع کارروائی کے لیے محکموں اور قومی پالیسی اداروں کے درمیان باقاعدہ ہم آہنگی، ڈیٹا شیئرنگ اور تعاون کو یقینی بناتا ہے۔

فی الحال سوچ میں تبدیلی کی فوری ضرورت ہے۔ صرف انتظامی عملے پر بھروسہ کرنے کے بجائے جوکہ ماحولیاتی یا موسمیاتی مسائل میں مہارت بھی نہیں رکھتے، ماہرین کے ایک گروپ کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح فیصلے اور اقدامات جدید اور خصوصی علم پر مبنی ہونے چاہئیں۔

صاف ہوا کے لیے کلائمیٹ فنانسنگ

امریکی انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کا اندازہ ہے کہ فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے خرچ کیے جانے والے ہر ایک ڈالر کے بدلے 30 ڈالر کا معاشی فائدہ ہوتا ہے۔ تاہم 2015ء سے 2021ء تک، بین الاقوامی ترقیاتی فنڈز کا ایک فیصد سے بھی کم اور بین الاقوامی پبلک کلائمیٹ فنانس کا صرف دو فیصد فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

حکومت کو مالیاتی شرائط کو مزید پُرکشش بنانے کے لیے گرانٹس اور رعایتی فنڈنگ کا استعمال کرتے ہوئے نجی اور تجارتی فنانسنگ کو راغب کرنے کرتے ہوئے فعال اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس سے پاکستان میں نجی شعبے کو کلین ٹیکنالوجیز اپنانے کی ترغیب ملے گی۔

حکومت کو ایسے منصوبے بھی تجویز کرنے چاہئیں جو بالخصوص زراعت اور توانائی کے شعبوں میں فضائی آلودگی میں کمی کو موسمیاتی اہداف سے منسلک کریں۔ صاف ہوا کے لیے فنانسنگ ملک کے موسمیاتی مالیاتی مذاکرات کا کلیدی حصہ ہونا چاہیے۔

قلیل مدتی آلودہ مواد سے نمٹنے کی پالیسیز

پاکستان کو قومی سطح پر طے شدہ شراکت (NDCs) 3.0 کے اگلے مرحلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر آلودگیوں دونوں کو شامل کرنا چاہیے جوکہ اس سال کے اوائل میں ہوں گے۔ موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف، موافقت اور ترقی پر بروقت پیش رفت کے لیے ان آلودگیوں سے نمٹنا بہت ضروری ہے۔

نائٹرس آکسائیڈ، میتھین اور اوزون جیسے قلیل مدتی ماحولیاتی آلودگیوں سمیت کاربن ڈائی آکسائیڈ کے علاوہ آلودگی پیدا کرنے والے سرکردہ ممالک میں سے ایک کے طور پر پاکستان کو صحت عامہ، غذائی تحفظ اور اقتصادی ترقی کے لیے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔

NDCs 3.0 کو سیکٹرل اور قومی دونوں سطحوں پر اخراج کو کم کرنے کے لیے واضح اہداف کا تعین کرنا چاہیے جن کی حمایت حقیقت پسندانہ منتقلی کے منصوبوں، مضبوط پالیسیز اور واضح مالیاتی ضروریات سے ہوتی ہے۔ انہیں لوگوں اور ان کے ذریعہ معاش کے تحفظ کے لیے موافقت کی ترجیحات کو بھی اجاگر کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ طویل مدتی پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے ان اہداف کو وسیع تر قومی ترقی کی حکمت عملیوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جانا چاہیے۔

فضائی آلودگی کے خاتمے کیلئے زیادہ مالیات کا استعمال

پاکستان کی سینیٹ اور متعلقہ پارلیمانی مالیاتی اداروں کو ایسی پالیسیز پر توجہ مرکوز دینی چاہیے جو مالیاتی اداروں کو فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے براہ راست فنڈنگ کے لیے زور دیں۔ مالیاتی اداروں کو اپنی گورننس، آپریشنز، پبلک رپورٹنگ، سرمایہ کاری کی مصنوعات اور رسک منیجمنٹ کے طریقوں کے کلیدی حصے کے طور پر پائیداری کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

پاکستان میں کمرشل بینکوں کو چاہیے کہ وہ منصوبوں کے لیے فنانسنگ اور قرضہ دیتے وقت موسمیاتی خطرے کا جائزہ لیں اور ہوا کے معیار کو مدنظر رکھیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ماحولیاتی اور سماجی رسک منیجمنٹ 2022ء فریم ورک اور گرین بینکنگ گائیڈ لائنز 2017ء کے بہتر نفاذ کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ ہوا کے معیار کو بہتر بنانے میں مالیاتی شعبے کے کردار کو فروغ دیا جا سکے۔ ان فریم ورکس کو ہر سطح پر ماحولیات، سماجی اور گورننس کی حکمت عملیوں جیسے اسٹریٹجک، پورٹ فولیو اور لین دین میں ضم کیا جانا چاہیے۔

اس کے علاوہ مالیاتی شعبے کو نئی مالیاتی مصنوعات بنانے کی ضرورت ہے جو پائیدار، کم اخراج والی ٹیکنالوجیز، پائیدار زراعت، قابل تجدید توانائی اور صاف صنعتی اور نقل و حمل کے عمل جیسے شعبہ جات کو فروغ دینے کی سرمایہ کاری میں نجی شعبے کی ساتھ دیں۔

میڈیا کوریج کو نہ صرف پارٹیکل میٹر 2.5 کی سطح بلکہ دیگر ان نقصان دہ گیسز کو بھی شامل کیا جانا چاہیے جن کے صحت پر زیادہ سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سے فضائی آلودگی کے خطرات کی وسیع رینج کے حوالے سے شعور پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔

فضائی آلودگی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی روک تھام کی فوری ضرورت ہے جبکہ اس کے لیے سائنس، مالی پالیسی سمیت سیفع واضح پالیسیز اور حل کی ضرورت ہے۔

اگرچہ حکومت نے نیشنل کلین ایئر پالیسی، پنجاب کلین ایئر ایکشن پالیسی اور پنجاب اسموگ پالیسی جیسی پالیسیز متعارف کروائی ہیں لیکن ان اقدامات کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے اور ان کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے اب بھی مضبوط سرکاری اور نجی شعبہ جات کی شراکت داری کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 9 اے کا اضافہ صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کو عوام کا بنیادی حق قرار دیتا ہے۔ یہ ملک کے ماحولیاتی نظام میں ایک اہم قدم ہے جو فضائی آلودگی، موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان جیسے اہم مسائل پر کارروائی کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے ہماری زمین رہائش کے قابل رہے۔


ہیڈر: اے آئی سے تیار کردہ


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عاصم جعفری

لکھاری کنٹری پروگرام لیڈ فار فیئر فنانس پاکستان ہیں اور انسانی حقوق، ماحولیاتی انصاف اور مالیاتی پالیسیز میں مہارت رکھتے ہیں۔ آپ کا ایکس ہیڈل jaffry05@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔