پہلی ششماہی میں سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام پر محض 10 فیصد فنڈز خرچ ہونے کا انکشاف
رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں سرکاری شعبے کا ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) محض 148 ارب روپے رہ گیا ہے، جب کہ محصولات میں نمایاں کمی اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فنڈز کے اجرا پر حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بدھ کو وزارت منصوبہ بندی و ترقیات کی جانب سے جاری پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر 2024) کے اعداد و شمار کے مطابق پی ایس ڈی پی کے کُل اخراجات تقریباً 148 ارب روپے رہے، جو ایک ہزار 400 ارب روپے کے اصل بجٹ کا تقریباً 10.5 فیصد ہے۔
اسی عرصے کے دوران ملک کو ہدف کے مقابلے میں تقریباً 386 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
پی ایس ڈی پی کا استعمال مجموعی مالیت اور فیصد، دونوں لحاظ سے گزشتہ سال کے اسی عرصے (نگران دور حکومت) کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
نگران سیٹ اپ میں مالیاتی کنٹرول منتخب حکومتوں کے مقابلے میں سخت تھا، اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا دسمبر 2023 کے دوران پی ایس ڈی پی کے اخراجات 150 ارب روپے رہے، جو سالانہ مختص کردہ 940 ارب روپے کا 16 فیصد ہے۔
تمام 36 وفاقی وزارتیں اور ڈویژنز اور ان کے ذیلی ادارے 6 ماہ میں صرف 124 ارب 50 کروڑ روپے خرچ کر سکے، جو ان کے لیے مختص کردہ 843 ارب روپے کا 14.7 فیصد ہے۔
تاہم پلاننگ کمیشن نے دعویٰ کیا کہ سال کی پہلی ششماہی میں وفاقی وزارتوں کو 286 ارب 60 کروڑ روپے دینے کی منظوری دی گئی تھی، جو سالانہ ہدف (843 ارب روپے) کا تقریباً 34 فیصد ہے اور وزارت خزانہ کی ہدایات کے مطابق ہے، لیکن صرف 124 ارب 50 کروڑ روپے ہی منصوبوں پر خرچ کیے جا سکے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت منصوبہ بندی نے ایک ہزار 100 ارب روپے کے پی ایس ڈی پی میں سے 376 ارب روپے کی منظوری دی تھی، جو سہ ماہی کوٹے کے مطابق تھی لیکن اصل اخراجات 148 ارب روپے تھے۔
مجموعی طور پر دو بڑے کارپوریٹ اداروں نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) نے مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی میں 23 ارب 60 کروڑ روپے یا تقریباً 9 فیصد فنڈز خرچ کیے، جب کہ ان دونوں کے مشترکہ مختص کردہ 255 ارب روپے تھے۔
انفرادی طور پر بھی این ایچ اے نے 19 ارب 70 کروڑ روپے استعمال کیے، جب کہ اس کا سالانہ حصہ 161 ارب روپے ہے۔
توانائی کے شعبے نے سال کی پہلی ششماہی میں 3 ارب 90 روپے یا سالانہ مختص 95.5 ارب روپے کا تقریباً 4 فیصد استعمال کیا۔
اسی طرح ملک کو قدرتی آفات کے خطرات لاحق ہونے کے باوجود کلائمیٹ چینج ڈویژن نے 6 ماہ میں صرف 11 کروڑ 30 لاکھ روپے یا 5 ارب 25 کروڑ روپے سے زائد مختص کی گئی رقم کا تقریباً 2 فیصد خرچ کیا، سماجی شعبے میں ایک اور اہم وزارت قومی تحفظ خوراک 23 ارب 90 کروڑ روپے کے مقابلے میں 2.5 فیصد (61 کروڑ 30 لاکھ روپے) استعمال کر سکی ہے۔
ریلوے ڈویژن غیر معمولی طور پر 12 ارب 24 کروڑ روپے خرچ کر کے عام استعمال کی حد کو چھو پایا، جو 35 ارب روپے کے مختص کردہ رقم کا تقریباً 35 فیصد ہے۔
اس کے برعکس منصوبہ بندی کمیشن، جو ترقیاتی پروگرام کا نگہبان ہے، خود صرف ایک ارب 10 کروڑ روپے خرچ کر سکا ہے، جو بجٹ منظوری کے وقت جمع کیے گئے 21 ارب 40 کروڑ روپے کے بھاری مختص کا تقریباً 5 فیصد ہے۔
صوبے اور خصوصی علاقے (خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ضم شدہ اضلاع) مشترکہ طور پر 46 ارب روپے خرچ کرنے کے قابل رہے، جو ان کے سالانہ مختص 257 ارب روپے کا تقریباً 18 فیصد تھا۔
آبی وسائل ڈویژن، جس کے پاس پی ایس ڈی پی میں سب سے زیادہ 170 ارب روپے مختص تھے، صرف 32 ارب روپے یا 18.8 فیصد خرچ کر سکا، ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 61 ارب روپے کے مقابلے میں 9.6 ارب روپے (15.7 فیصد) خرچ کیے، کابینہ ڈویژن نے 51 ارب روپے کے مقابلے میں 68 لاکھ روپے (0.013 فیصد) خرچ کیے۔
تاہم 6 وزارتیں، وزارت تجارت، مواصلات، ہاؤسنگ اینڈ ورکس، انسداد منشیات، مذہبی امور اور اسٹریٹجک پلاننگ مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی میں ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کر سکیں۔