دنیا

جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے قائم مقام صدر کے مواخذے کی تحریک بھی منظور کرلی

جنوبی کوریا کے قانون کے مطابق ہان ڈک سو کے مواخذے کے بعد وزیر خزانہ چوئی سانگ موک قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالیں گے۔

جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ کی اکثریت نے قائم مقام صدر ہان ڈک سو کے مواخذے کے حق میں ووٹ دے دیا۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ کے مطابق 300 رکنی پارلیمان میں سے 192 قانون سازوں نے وزیراعظم اور قائم مقام صدر ہان ڈک کے مواخذے کی تحریک کے حق میں ووٹ دیا۔

وزیر اعظم ہان ڈک سو اس وقت سے قائم مقام صدر تھے، جب 14 دسمبر کو صدر یون سوک یول کا مواخذہ کیا گیا تھا، کیونکہ انہوں نے 3 دسمبر کو مارشل لا نافذ کیا تھا اور ان کے صدارتی اختیارات معطل کر دیے گئے تھے۔

جنوبی کوریا کے قانون کے مطابق ہان کے مواخذے کے بعد وزیر خزانہ چوئی سانگ موک قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالیں گے۔

اپوزیشن نے قائم مقام صدر پر مواخذے کا سامنا کرنے والے صدر یون سک یول کی بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔

حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی (ڈی پی) نے ہان کے مواخذے کا فیصلہ اس وقت کیا جب انہوں نے آئینی عدالت میں خالی اسامیوں کو پر کرنے کے لیے فوری طور پر تین ججوں کی تقرری نہیں کی تھی۔

’ڈی پی‘ کے زیر کنٹرول پارلیمنٹ نے جمعرات کو عدالت کے لیے 3 نامزد ججز (امیدواروں) کی حمایت کی تھی، لیکن ہان ڈک سو نے کہا تھا کہ وہ باضابطہ طور پر ان کا تقرر اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ تقرریوں پر دو طرفہ معاہدہ نہ ہوجائے۔

اس سے قبل ہان ڈک سو کی پیپلز پاور پارٹی (پی پی پی) نے کہا تھا کہ آئینی عدالت میں ججز کے تقرر کا اختیار صرف منتخب صدر کے پاس ہے۔

عدالت کے کم از کم 6 ججز کو سابق صدر یون کے مواخذے کو برقرار رکھنا ہوگا تاکہ انہیں عہدے سے ہٹایا جا سکے۔

اس سال کے اوائل میں 3 ججز کی ریٹائرمنٹ کے بعد فی الحال عدالت میں صرف 6 جج ہیں، جس کا مطلب ہے کہ بینچ کو یون کو صدارت سے ہٹانے کے لیے متفقہ فیصلہ دینا ہوگا۔

عدالت یون کے مواخذے پر اپنی پہلی سماعت آج کرے گی اور اس کا فیصلہ سنانے میں 6 ماہ لگ سکتے ہیں۔

سابق صدر یون، جنہوں نے اپنے مارشل لا کے اعلان کو ’قانونی‘ قرار دیتے ہوئے اس کا مقصد ریاست مخالف قوتوں سے نمٹنا بتایا ہے، اس وقت بغاوت اور اختیارات کے غلط استعمال کے شبے میں فوجداری تحقیقات کے دائرے میں ہیں۔

سابق صدر یون کے مواخذے کے بعد عہدہ سنبھالنے کے 2 ہفتے سے بھی کم عرصے کے بعد وزیراعظم ہان ڈک سو کے مواخذے نے جنوبی کوریا کو مزید سیاسی غیر یقینی صورتحال کی جانب دھکیل دیا ہے، کیونکہ ملک اب بھی یون کے 4 دسمبر کے مارشل لا کے حکم نامے کی زد میں ہے۔

موجودہ صدر کے مواخذے کے لیے قومی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، لیکن اس بات پر اتفاق رائے نہیں ہے کہ آیا یہ حد کسی قائم مقام رہنما پر بھی لاگو ہوتی ہے یا نہیں۔

پی پی پی کا موقف ہے کہ دو تہائی قانون سازوں کو سابق صدر ہان کے مواخذے کی منظوری دینا ضروری ہے۔

ڈی پی کا کہنا ہے کہ اگر 151 قانون ساز مواخذے کی حمایت کرتے ہیں، تو انہیں معطل کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ آئین میں سادہ اکثریت کے ووٹ سے کابینہ کے ارکان کو ہٹانے کا اہتمام ہے۔

ڈی پی، چھوٹی اپوزیشن جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے پاس 192 نشستیں ہونے کے لیے پیپلز پاور پارٹی کے کم از کم 8 ارکان کو دو تہائی کی حد تک پہنچنے کے لیے یہ راستہ پار کرنا پڑے گا۔

اس سے قبل نائب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ چوئی سانگ خبردار کرچکے تھے کہ وزیراعظم کے مواخذے سے جنوبی کوریا کی معاشی ساکھ کو شدید دھچکا لگے گا، انہوں نے حزب اختلاف پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی کوشش پر نظر ثانی کرے۔

نائب وزیراعظم چوئی سانگ نے کہا تھا کہ معیشت اور لوگوں کا ذریعہ معاش قومی ہنگامی حالت کے تحت ’باریک برف‘ پر چل رہا ہے، یہ کسی بھی بڑی سیاسی غیر یقینی صورتحال کا مقابلہ نہیں کر سکتی، جس کے نتیجے میں ایک اور قائم مقام صدر قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالے گا۔