دنیا

شام میں بشار الاسد کے حامیوں کا گھات لگاکر حملہ، وزارت داخلہ کے 14 فوجی ہلاک

فورسز پر تازہ حملہ اس وقت کیا گیا، جب وہ دارالحکومت دمشق کے قریب صیدنایا جیل میں سابق افسر کے کردار کے سلسلے میں اسے گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے تھے، حکام
Welcome

نئی شامی حکومت کا کہنا ہے کہ معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں نے ملک کے مغربی حصے میں گھات لگا کر’حملے’ کیے، جن کے نتیجے میں وزارت داخلہ کے 14 فوجی ہلاک ہوگئے۔

بی بی سی نیوز کے مطابق حکام نے بتایا کہ گزشتہ روز بحیرہ روم کی بندرگاہ طرطوس کے قریب ہونے والی لڑائی میں بھی 10 دیگر فوجی زخمی ہوئے تھے، یہ علاقہ بشار الاسد کے اقلیتی علوی فرقے کا گڑھ ہے۔

اطلاعات کے مطابق سکیورٹی فورسز پر تازہ حملہ اس وقت گھات لگا کر کیا گیا، جب وہ دارالحکومت دمشق کے قریب واقع بدنام زمانہ صیدنایا جیل میں ایک سابق افسر کے کردار کے سلسلے میں اسے گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

صرف 2 ہفتے قبل بشار الاسد کی صدارت ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی قیادت میں باغی قوتوں کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی۔

برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کا کہنا ہے کہ جھڑپوں میں 3 مسلح افراد بھی ہلاک ہوئے، جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

ایس او ایچ آر نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز بعد میں کمک لے کر آئیں۔

حمص شہر میں فساد کے خدشے پر کرفیو کا نفاذ

سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک اور پیش رفت میں شامی حکام نے حمص کے مرکزی شہر میں فساد کے خدشات پر رات بھر کا کرفیو نافذ کر دیا، اطلاعات کے مطابق یہ کرفیو ایک ویڈیو کے بعد لگایا گیا ہے، ویڈیو میں مبینہ طور پر ایک علوی مزار پر حملہ دکھایا گیا تھا۔

وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ فوٹیج پرانی ہے، جو نومبر کے اواخر میں حلب میں باغیوں کے حملے کی ہے اور یہ تشدد نامعلوم گروہوں کی جانب سے کیا گیا تھا۔

ایس او ایچ آر کا کہنا ہے کہ حمص میں مظاہرین میں شامل ایک شہری ہلاک اور 5 زخمی ہوئے۔

طرطوس اور لتاکیا شہروں اور بشار الاسد کے آبائی شہر قردہہ سمیت کئی علاقوں میں بھی مظاہروں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔

یاد رہے کہ علوی شیعہ سے سابق حکومت کی بہت سی سیاسی اور فوجی اشرافیہ کا تعلق تھا، جن میں اسد کا خاندان بھی شامل تھا، یہ کمیونٹی انتقام سے خوفزدہ ہے، جس کے ارکان کو اسد کے دور میں شام میں تشدد اور قتل و غارت کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

سابق افسران ہتھیار ڈالنے سے انکار کر رہے ہیں اور کچھ قصبوں میں مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اس کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں، علوی مذہبی رہنماؤں کی طرف سے علویوں کے لیے عام معافی کا مطالبہ کیا جاتا ہے، لیکن اس کے ارکان کی طرف سے کیے جانے والے بہت سے مبینہ جنگی جرائم کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے۔

شام کی جیلوں میں ہزاروں افراد کو تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، ہزاروں خاندان اب بھی جوابات اور انصاف کے منتظر ہیں، شامی عوام ذمہ داروں کے لیے انصاف اور مقدمات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں علویوں کے رہنما فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔

شام کے شمال مشرق سے شروع ہونے والی ایچ ٹی ایس کی زیر قیادت برق رفتار کارروائی ملک بھر میں پھیل گئی تھی، جس کے نتیجے میں اسد خاندان کی 50 سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوا تھا، اسد اور ان کے اہل خانہ روس بھاگنے پر مجبور ہوئے تھے۔

اس کے بعد سے ایچ ٹی ایس نے شام میں بہت سی مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کا وعدہ کیا ہے۔

منگل کے روز شام میں کرسمس کے درخت کو نذر آتش کیے جانے کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جس کے بعد کئی ممالک نے نئے حکام سے اقلیتوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا تھا۔