سالنامہ: 2024ء کے اہم عالمی واقعات جن کے اثرات سے بچنا ناممکن ہے
مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگیں، مہنگائی کا عالمی بحران، فرانس، جرمنی اور جنوبی کوریا جیسے ممالک میں سیاسی عدم استحکام مایوس کن ہے لیکن گزشتہ 4 برس سے موازنہ کیا جائے تو رواں سال عالمی منظرنامے کے لیے قدرے بہتر نظر آتا ہے۔
ایپسو کے نام سے حال ہی میں ایک سروے ہوا جس میں 33 ممالک سے تعلق رکھنے والے 23 ہزار 721 بالغ افراد نے حصہ لیا۔ 65 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ 2024ء ان کے ملک کے لیے ایک خراب سال رہا جبکہ 51 فیصد نے اسے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے برا سال قرار دیا۔ بہ ظاہر تو یہ اعداد و شمار کافی خراب ہیں مگر گزشتہ چار برس کی سروے رپورٹس کے سامنے یہ کسی غنیمت سے کم نہیں۔
ارجنٹینا، سویڈن، بیلجیئم، پولینڈ اور چین جیسے ممالک کے افراد نے مجموعی صورت حال کو پہلے سے بہتر قرار دیا جبکہ بھارت، جنوبی کوریا، فرانس اور میکسیکو جیسے ممالک میں حالات کو پہلے سے زیادہ مایوس کن قرار دیا گیا۔
عالمی منظرنامے پر 2024ء کے مثبت اور منفی پہلو کیا رہے؟ وہ کون سے واقعات ہیں جو آئندہ کئی برسوں تک دنیا کو متاثر کرتے رہیں گے؟ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں رواں برس ایسا کیا ہوا جسے غیر معمولی جست قرار دیا جا سکتا ہے؟ رخصت ہوتے سال کے اہم عالمی واقعات کی مختصر جھلک پیشِ نظر ہے۔
رواں برس میڈیا، جمہوریت اور دنیا کے سیاسی حالات کے لیے سب سے اہم ایونٹ امریکا کے صدارتی انتخابات تھے۔ البتہ کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے سیاسی تجزیہ کاروں کی اکثریت کو سرپرائز دیتے ہوئے ڈیموکریٹک امیدوار کاملا ہیرس کو واضح فرق سے شکست دی۔
یہ صدارتی انتخاب تاریخی میں اس لیے بھی یاد رکھے جائیں گے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ پر اس دوران دو مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا۔ جدید انسانی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات کے نتائج کے بعد امریکا میں واضح سماجی تقسیم اور دنیا میں جمہوریت کا مستقبل کس حد تک محفوظ ہے، اس کا درست اندازہ آئندہ برسوں میں ہونے والی عالمی پیش رفت سے لگایا جا سکے گا۔
2024ء کے اختتام سے پہلے جو دھماکا خیز خبر عالمی میڈیا کی زینت بنی وہ شام کے صدر بشارالاسد کا تخت الٹنا تھا۔ 9 دسمبر کو باغی گروہوں نے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کرلیا اور یوں بشار الاسد کا 24 سالہ اقتدار اپنے اختتام کو پہنچا اور روس فرار ہونا پڑا۔
کسی فیصلہ کن طبقے اور مؤثر حکومت کی عدم موجودگی شام کے لیے اچھی خبر نہیں مگر یہ بحث ابھی جاری ہے کہ آیا ان کا فرار آمریت کے خاتمے کی علامت ہے یا محض ایک نئے بحران کی شروعات؟
شامی عوام کو طویل انتظار کے بعد یہ خبر ملی۔ تاہم غیریقینی مستقبل کی دھندلی تصویر نے ان خوشی کو بے رنگ کر رکھا ہے۔ بشار الاسد اس وقت روس میں ہیں اور شام کا تخت باغیوں کے پاس ہے۔ کیا دنیا دو متحارب گروہوں کو قابلِ قبول حل کے لیے مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہوپائے گی؟
گزشتہ برس کا سب سے تکلیف دہ واقعہ اسرائیل اور حماس کی جنگ تھی جو رواں سال جاری رہا اور اب تک 45 ہزار سے زائد فلسطینی جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ہسپتال اور عبادت گاہیں بھی اسرائیلی بمباری سے محفوظ نہیں۔ یہ جنگ جارحیت اور درندگی کی بدترین مثال ہے۔
تصور کیجیے کہ مائیں اپنے بچوں کی ٹانگوں پر نام لکھ رہی ہیں تاکہ لاشیں پہچاننے میں آسانی ہو۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بھلا کیا ہوسکتا ہے؟ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس غزہ کو ’بچوں کا قبرستان‘ قرار دے چکے ہیں مگر وہ عملی طور پر کوئی متحرک کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
جنگ کے دوران امریکا اور مغربی ممالک کی حکومتوں کا رویہ افسوس ناک رہا جنہوں نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے اور جنگ بندی میں مؤثر کردار ادا کرنے کے بجائے اسے مزید ہوا دی۔ واضح رہے کہ امریکا غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے مجموعی طور پر چار بار اقوامِ متحدہ میں پیش کی جانے والی جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرچکا ہے جبکہ پینٹاگون کے سربراہ لائیڈ آسٹن کا یہ بیان روشن خیالی کے دعوے کرنے والوں کا بھیانک چہرہ سامنے لاتا ہے کہ ’ہم اسرائیل کو وہ ساز و سامان فراہم کرتے رہیں گے جو اسے اپنے دفاع کے لیے درکار ہے جس میں اہم گولہ بارود، تکنیکی گاڑیاں اور فضائی دفاعی نظام شامل ہے‘۔
صدر ابراہیم رئیسی کی اچانک موت نے 2024ء میں ایران کو شدید دھچکا پہنچایا۔ رپورٹس کے مطابق یہ ایک حادثہ تھا مگر ایسا کیسے ممکن ہے کہ سازشی نظریات سامنے نہ آئیں۔ کسی نے امریکا کی مداخلت کا ذکر کیا تو کسی نے اسے اسرائیل کی شرارت قرار دیا۔ یہاں تک کہ بعض نے اسے ایران کی اپنی کارستانی قرار دیا۔
ابراہیم رئیسی کی موت سے اچانک ایران میں قیادت کا بحران پیدا ہوا اور مختلف سیاسی گروہ اقتدار کے لیے متحرک ہوگئے۔ تاہم جولائی میں انتخابات کے دوران ایران کے اصلاح پسند رہنما مسعود پزشکیان صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے سخت گیر مؤقف رکھنے والے امیدوار سعید جلیلی کو شکست دی۔ مسعود پزشکیان کی انتخابی مہم میں جان مہنگائی اور امریکی پابندیوں سے نجات کے نعرے سے پڑی تھی مگر ابھی تک وہ کوئی بریک تھرو دینے میں ناکام رہے ہیں۔
سال 2024ء میں حماس کو دو بڑے دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حماس سربراہ اسمعٰیل ہنیہ کو اپنے دورہِ ایران کے دوران گیسٹ ہاؤس میں شہید کردیا گیا۔ اس پیش رفت کو حماس کی کمر توڑنے کے مترادف قرار دیا گیا لیکن 6 روز بعد یحییٰ سنوار حماس کے اگلے سربراہ مقرر ہوئے جوکہ پہلے ہی اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر تھے۔
حماس کو دوسرا دھچکا اس وقت لگا کہ جب اسرائیل کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا کہ گشت کے دوران اتفاقیہ طور پر یحییٰ سنوار سے سامنا ہونے پر اسرائیل نے مقابلے کے بعد انہیں شہید کردیا ہے۔ ویڈیو میں یحییٰ سنوار کے آخری لمحات کو دکھایا گیا جہاں وہ زخمی حالت میں ہونے کے باوجود اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی صہیونی ڈرون پر مارتے ہیں۔ یہ ویڈیو فلسطینیوں کی مزاحمت کی عظیم علامت تھی جس نے فلسطینیوں میں موجود آزادی کے جذبے کی بہترین عکاسی کی۔
2024ء میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی براہ راست فوجی تصادم میں بدل گئی جو ان کی پہلے سے جاری پراکسی وار میں ایک اہم تبدیلی کی علامت تھی۔
پہلا بڑا واقعہ 13 اپریل کو پیش آیا جب ایران کی اسلامی انقلابی گارڈ کور نے حزب اللہ اور حوثیوں کے ساتھ مل کر اسرائیل کی طرف 300 سے زائد ڈرونز اور میزائل داغے۔ یہ غیر معمولی حملہ دمشق میں ایرانی قونصل خانے کے ایک ضمنی دفتر پر اسرائیلی فضائی حملے کی انتقامی کارروائی تھی جس کے نتیجے میں دو ایرانی جنرل جاں بحق ہوئے تھے۔
اسرائیل نے امریکا، برطانیہ، فرانس اور اردن سمیت بین الاقوامی اتحادیوں کی مدد سے ان میں سے زیادہ تر میزائلوں کو روک لیا جس کے نتیجے میں نقصان زیادہ تر جنوبی اسرائیل کے نیویٹم ایئربیس تک محدود رہا۔
یہ تنازعہ یکم اکتوبر کو اس وقت شدت اختیار کرگیا جب ایران نے اسرائیل کی جانب تقریباً 200 بیلسٹک میزائل داغے۔ یہ کارروائی اسرائیل کی جانب سے کیے گئے کئی اہم شخصیات کا قصاص تھی جن میں تہران میں اسمعٰیل ہنیہ اور بیروت میں حسن نصراللہ کا قتل شامل تھا۔
26 اکتوبر کو اسرائیل نے ایک بڑا فضائی حملہ کیا جس میں 100 سے زائد طیاروں نے ایران کے ریڈار اور فضائی دفاعی نظاموں کو نشانہ بنایا جس سے ایران کی میزائل پیدا کرنے کی صلاحیتوں کو نمایاں طور پر نقصان پہنچا۔
جدید ترین ٹیکنالوجی اور خطرناک ترین اسلحے سے لیس اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں سے دنیا کے کئی خطے متاثر ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک لبنان بھی ہے جہاں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2023ء اور 20 نومبر 2024ء کے درمیان کم از کم 3 ہزار 600 افراد شہید ہوچکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 15 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
اسرائیل کی شدید بمباری اور زمینی کارروائیوں سے شہید اور زخمی ہونے والی بڑی تعداد کے علاوہ لاکھوں افراد بےگھر بھی ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ سے پیدا ہونے والے حالات کے باعث لبنان کے 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی طرف جانا پڑا ہے جو ملکی آبادی کا تقریباً 20 فیصد بنتا ہے۔ پناہ کی تلاش میں دربدر تقریباً 6 لاکھ افراد نے ہمسایہ ملک شام کا رخ کیا ہے اور یہ انسانی المیہ جاری ہے۔
رواں برس ستمبر کے مہینے میں اسرائیل نے حزب اللہ کی مرکزی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے اپنی کارروائیاں تیز کیں اور 17 ستمبر کو ملک بھر میں پیجرز پھٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں متعدد افراد جاں بحق اور ایرانی سفیر مجتبیٰ امانی سمیت تقریباً ڈھائی ہزار افراد زخمی ہوئے تھے جس کی ذمہ داری بعدازاں بنیامن نیتن یاہو نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ پیجرز دھماکے ان کے حکم پر ہوئے۔
27 ستمبر کو حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا۔ حملے کے وقت حسن نصر اللہ جنوبی بیروت میں ایک رہائشی عمارت کے تہہ خانے میں واقع ہیڈ کوارٹر میں اہم کمانڈرز کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھے۔
حسن نصر اللہ 1992ء سے حزب اللہ کی قیادت کر رہے تھے اور انہوں نے اس تنظیم کو لبنان میں ایک طاقتور سیاسی اور فوجی قوت میں بدل دیا تھاس جو ایران کی علاقائی حکمت عملی میں ایک اہم کردار ادا کر رہی تھی۔
2024ء میں جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت میں دائر مقدمے میں اہم پیش رفت ہوئی اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتین یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور انہیں جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرایا۔ مسلم دنیا اور مغرب کے امن پسند شہریوں کی کثیر تعداد نے اسے بین الاقوامی قانون کی حمایت قرار دیا۔
بی بی سی کے مطابق اس حوالے سے ایک بیان میں حماس کی جانب سے کہا گیا کہ ’ہم دنیا کے تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صہیونی جنگی مجرمان نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیردفاع گیلنٹ کو عدالت میں لانے کے آئی سی سی کے ساتھ تعاون کریں اور غزہ کی پٹی میں شہریوں کے خلاف نسل کشی کے جرائم کو فوری طور پر روکنے کے لیے کام کریں‘۔
2024ء میں اسپین، ناروے اور آئرلینڈ نے باضابطہ طور پر فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کیا جو عالمی سیاست میں غیرمعمولی قدم ہے۔ اس فیصلے کو فلسطین کے حامیوں اور مسلم دنیا کی طرف سے خوب پذیرائی ملی۔ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے ردعمل کے طور پر رواں ماہ اسرائیل نے آئرلینڈ میں موجود اپنا سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا۔
بہت سے ممالک کے سفارت کاروں نے تسلیم کیے جانے کے اس عمل کو علامتی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے دیگر ممالک سے بھی ایسا کرنے کی اپیل کی۔ کیا یہ دو ریاستی حل کی طرف فیصلہ کن قدم ثابت ہوسکتا ہے؟ بہرحال یہ فلسطینیوں کے لیے ایک فخر کا لمحہ تھا جس نے انصاف اور آزادی کے لیے ان کی جدوجہد کو تقویت بخشی۔
ڈھاکا سے شروع ہونے والے طلبہ کے احتجاج کی ملک گیر صورت اختیار کرنے کے بعد وزیراعظم شیخ حسینہ ملک چھوڑ کر بھارت فرار ہوگئیں اور ان کے 15 سالہ دورِ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ 2024ء میں بنگلہ دیش کی سیاست میں اس وقت ہلچل پیدا ہوئی جب پُرتشدد مظاہروں اور ان میں سیکڑوں ہلاکتوں کے بعد وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے استعفیٰ دیا اور بہن کے ہمراہ ملک سے فرار ہوگئیں۔
2024ء بنگلہ دیش میں انتخابات کا سال تھا جہاں مسلسل چوتھی بار شیخ حسینہ کامیاب ہوئیں۔ انہیں خطے کی طاقتور ترین خاتون کہا جاتا تھا مگر وہی آمریت پسند مزاج رہنما آنسوؤں میں ڈوبی نظر آئیں۔ شیخ حسینہ نے ڈاکٹر یونس کو ’غریبوں کا خون چوسنے والا‘ قرار دیتے ہوئے کرپشن کی بنیاد پر جیل میں ڈالا تھا لیکن اب گردش ایام دیکھیے کہ وہ جیل سے نکل کر عبوری حکومت کے نگران وزیراعظم بن چکے ہیں۔
رواں سال ایک اور غیرمعمولی واقعہ جنوبی کوریا کا قلیل مدتی مارشل لا تھا۔ جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے 3 دسمبر کو جنوبی کوریا کو ایٹمی قوت کے حامل دشمن ملک شمالی کوریا کے جارحانہ اقدامات اور ریاست مخالف عناصر سے بچانے کا جواز پیش کرتے ہوئے ملک میں مارشل لگایا جو محض 6 گھنٹے ہی چل سکا۔
پارلیمنٹ کے باہر شدید عوامی مظاہرے ہوئے جہاں عوام فوجیوں سے لڑتی نظر آئی جبکہ رات گئے اراکین پارلیمنٹ نے مارشل لا روکنے کی قرارداد منظور کی جس کے بعد صدر کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اس کے بعد ملک بھر میں غیرمقبول صدر کے خلاف مہم چلائی گئی اور 14 دسمبر کو حزب اختلاف کی جانب سے صدر کے مواخذے کی تحریک کامیاب ہوگئی جس کے بعد وزیراعظم جنوبی کوریا قائم مقام صدر کے عہدے پرفائز ہیں۔
2024ء میں میکسیکو نے پہلی خاتون صدر کا انتخاب کرتے ہوئے تاریخ رقم کی۔ کلاڈیا شیئن بام کی مہم صنفی مساوات، تعلیمی اصلاحات اور منظم جرائم کے خاتمے پر مرکوز تھی۔ خواتین نے اس کامیابی کو میکسیکو میں ایک نئے دور کے آغاز کے طور پر منایا۔ اگرچہ بہت سے ناقدین ان کی انتظامی صلاحیتوں پر سوال اٹھا رہے ہیں لیکن دنیا میں صنفی برابری اور جمہوری عمل کے لیے یہ ایک یادگار لمحہ تھا۔
کلاڈیا شیئن بام بنیادی طور پر ایک موسمیاتی سائنسدان ہیں جنہوں نے 1995ء میں میکسیکو کی نیشنل یونیورسٹی سے انرجی انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ شیئن بام کی اپنی صدارتی مہم کے دوران کہے گئے الفاظ اہم تھے، ’ہم تبدیلی لاتے ہیں۔ ہم جنگجو ہیں جو دوسری خواتین کے لیے راستے کھولتے ہیں‘۔
رواں برس 24 فروری کو روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو دو سال پورے ہوچکے ہیں۔ اس دوران درجنوں شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، ہزاروں زندگیاں موت کی نذر ہو چکی ہیں جبکہ لاکھوں افراد بھوک کا شکار ہیں اور اپنے گھروں سے محروم ہوچکے ہیں۔ تقریباً دو سال گزر جانے کے بعد بھی صورت حال میں بہتری نظر نہیں آتی۔
اقوام متحدہ متنبہ کرچکا ہے کہ اس جنگ کے شعلے پوری دنیا میں پھیل سکتے ہیں لیکن وہ نتیجہ خیز حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ مغربی ممالک کی یوکرین کو اسلحہ اور بارودی مواد سپلائی کرنے کی پالیسی کیا ٹرمپ انتظامیہ آنے کے بعد بھی برقرار رہے گی؟ ماہرین اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔
امریکا کے نومنتخب صدر نے چند روز قبل یوکرین پر سخت تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’یوکرین نے امریکا کی طرف سے دیے گئے میزائلوں سے روس کی سرزمین پر حملے‘ کیوں کیے؟ ٹائم میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ امریکا یوکرین کے حوالے سے اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے گا۔
2024ء میں چیٹ جی پی ٹی نے تعلیم، صحت اور تخلیقی صنعتوں میں اپنی جگہ مستحکم کر لی۔ یہ صحیح معنوں میں چیٹ جی پی ٹی کا سال تھا۔ محض طب اور سائنس کے شعبے میں چیٹ جی پی ٹی کے بڑھتے ہوئے استعمال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ دنیا یک لخت تبدیل ہونے والی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی مفت سرچ انجن متعارف کروا چکا ہے جو ممکنہ طور پر گوگل کا بوریا بستر لپیٹ دے گا مگر کیا گوگل اپنا چیٹ بوٹ متعارف کروا کر بازی پلٹ سکتا ہے؟
2024ء میں الزائمر کے علاج میں ایک انقلابی پیش رفت ہوئی جس نے لاکھوں مریضوں اور ان کے خاندانوں کے لیے امید کی کرن پیدا کر دی ہے۔ خیال رہے سالانہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ اس موذی مرض کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
تجربات کے بعد دریافت ہونی والی نئی تھراپی نے بیماری کی بنیادی وجوہات کو نشانہ بنایا اور کلینیکل ٹرائلز میں شاندار نتائج سامنے آئے۔ اس حوالے سے خاندانوں نے جذباتی کہانیاں شیئر کی ہیں جہاں مریض کھوئی ہوئی یادداشت واپس حاصل کرتے نظر آئے۔ سائنسدانوں نے اس کامیابی کو طبی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل قرار دیا ہے۔
سری لنکا کے 2024ء کے صدارتی انتخابات نے سیاسی طور پر ایک غیر مستحکم قوم میں امید کی کرن پیدا کی اور بالآخر ایک ایسے اصلاح پسند رہنما کو منتخب کرنے میں کامیاب رہی جس نے معاشی مسائل اور نسلی کشیدگی کے خاتمے کا وعدہ کر رکھا تھا۔
انورا کمارا ڈسانائیکے کی ابتدائی اصلاحات، برادریوں کے درمیان مصالحت اور معیشت کے فروغ کی کوششوں کو سراہا جا رہا ہے۔ یہ انتخابات سری لنکا کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوئے ہیں جہاں اس کے شہری ایک بہتر مستقبل کے لیے پُرامید ہیں۔
جنوری 2024ء میں ’آئیکون آف دی سیز‘ نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ 365 میٹر طویل اس مسافر بردار بحری جہاز میں وہ ہر آسائش موجود ہے جس کا سمندری سفر میں تصور کیا جا سکتا ہے۔
واٹر پارک اور عالمی معیار کے ریسٹورنٹس سے آرستہ یہ کروز انجینئرنگ کا شاہکار ہے لیکن ماحولیاتی ماہرین نے کاربن کے استعمال کی وجہ سے اس پر تنقید کی ہے۔
اس بحری جہاز میں 20 ڈیک ہیں جبکہ اس میں زیادہ سے زیادہ 7 ہزار 600 مسافروں کی گنجائش موجود ہے۔ واضح رہے کہ یہ بحری جہاز رائل کیریبین گروپ کی ملکیت ہے۔
جنوری 2024ء میں ایلون مسک کی نیورا لنک نے دماغ پڑھنے والی ڈیوائس کی کامیاب امپلانٹ کی۔ یہ ڈیوائس نیورولوجیکل مسائل میں مبتلا افراد کے لیے تیار کی گئی تھی جس کے شاندار نتائج سامنے آئے۔
پرائیویسی اور ممکنہ غلط استعمال پر ناقدین اپنے خدشات کا اظہار کررہے ہیں جبکہ اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ طب کی دنیا میں انقلاب برپا کر دے گا بالخصوص اس کے ذریعے معذور افراد باآسانی معمول کی زندگی گزار سکیں گے۔
نیورا لنک کی کامیابی نے انسان اور مصنوعی ذہانت کے انضمام پر مباحثے کو جنم دیا ہے۔ کیا انسان ٹیکنالوجی کی مدد سے آگے بڑھیں گے؟ کیا ہمارے دماغ کی جگہ ڈیوائس رکھ دی جائے تو ہم ویسے ہی انسان رہیں گے جیسے پہلے تھے؟ ان سوالات پر زور و شور سے مباحثے جاری ہیں۔
لکھاری ادب، فلم، موسیقی اور تاریخ سے شغف رکھتے ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل یہ ہے @FaruqAzam20
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔