نقطہ نظر

موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں پاکستانی خواتین کا مؤثر کردار

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بے گھر ہونے والے ہر 5 افراد میں سے 4 خواتین ہوتی ہیں جبکہ شدید موسمیاتی آفات خواتین کی تولیدی صحت پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر موجود پاکستان کو تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز سے لے کر تباہ کن سیلابوں کا سامنا ہے۔

اس سال جیکب آباد سے لے کر کراچی تک گرم ترین موسم کے تمام ریکارڈز ٹوٹ گئے۔ لو کے تھپیڑے ہوں یا پھر طوفانی بارشیں، شہریوں کو غیرمعمولی موسم کا سامنا رہا۔ حالیہ دنوں لاہور اسموگ کی لپیٹ میں ہے تو کراچی میں بھی سمندری ہوا کی وجہ فضا آلودہ ہے۔ غرض یہ کہ موسمیاتی تبدیلیاں ہمارے شہروں اور دیہات پر اثرانداز ہورہی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی نے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا ہے۔ انسان ہوں یا حیوان سب ہی اس عفریت کا شکار ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا غالب حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور وہ لامحالہ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے گزر رہی ہیں۔ جہاں ایک جانب وہ اپنی صحت کو لاحق خطرات سے دوچار ہیں وہیں انہیں معاشی میدان میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انٹرنیشنل واٹر منیجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زراعت کے شعبے میں 68 فیصد خواتین جبکہ 28 فیصد مرد اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ان میں سے 50 فیصد وہ خواتین ہیں جو اپنا گھر بھی چلاتی ہیں۔ اب جب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہماری زراعت متاثر ہے تو ایسے میں خواتین کی مشکلات میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے۔


موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ چند خواتین


ابراہیم حیدری کی 64 سالہ رشیدہ بی بی سے جب ہماری ملاقات ہوئی تو وہ گھر میں مچھلیاں صاف کر رہی تھیں۔ گفت شنید میں بتاتی ہیں کہ، ’یہاں پہلے جھینگا صاف کرنے والی فیکٹری ہوا کرتی تھیں تو مجھے باآسانی کام مل جاتا تھا لیکن مینگروو کے جنگلات کے خاتمے کے ساتھ یہ فیکٹریاں بھی ختم ہوچکی ہیں کیونکہ یہ جنگلات جھینگوں کے لیے نرسری کی حیثیت رکھتے تھے۔ لہٰذا سمندر میں جھینگوں کی تعداد کم ہوچکی ہے جس کا براہ راست اثر ہماری آمدن پر پڑا ہے‘۔

کیٹی بندر کی 28 سالہ بی بی آمنہ، 2022ء کے سیلاب میں نقل مکانی کرکے روہڑی گوٹھ پہنچی تھیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’شوہر نے قرض لے کر بڑی کشتی خریدی تاکہ سمندر میں جا کر زیادہ مچھلی اور جھینگے پکڑ کر خاندان کا پیٹ پال سکیں لیکن سیلاب میں کشتی ٹوٹ گئی اور ہم قرض کے بوجھ تلے دب گئے‘۔

اب آمنہ کا خاندان کراچی پہنچ چکا ہے۔ گھر کی خواتین اور لڑکیاں گھروں میں کام کرتی ہیں لیکن ان کا قرضہ اتارتا نہیں۔ آمنہ کے خاوند اور 2 بیٹے روزگار کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی مل گیا تو ٹھیک ورنہ وہ خالی ہاتھ گھر آجاتے ہیں۔

بالائی چترال کے گاؤں ریشون کی رہائشی فاطمہ نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے صرف اخبارات یا ٹی وی پر کبھی پڑھنے اور سننے کو ملا مگر گزشتہ کچھ برسوں سے بارشوں کے بعد آنے والے تباہ کن سیلابوں نے ہماری زندگیوں کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے‘۔

کہتی ہیں کہ ’جولائی اور اگست کے مہینوں میں ہمارے گاؤں کے قریب سے گزرنے والے پانی کے ریلوں سے اتنی شدید آوازیں آتی ہیں کہ بچے رات کو سو نہیں پاتے۔ یہ صورت حال محض گزشتہ چند سالوں میں سامنے آئی ہے۔ پانی کی رفتار اور اس کی مقدار میں اضافہ ہونے کی وجہ سے کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ درجن بھر خاندان جنہیں میں ذاتی طور پر جانتی ہوں وہ اپنے گاؤں چھوڑ کر شہروں میں جا بسے ہیں‘۔

فاطمہ مزید بتاتی ہیں کہ ’برسات کے موسم میں آس پاس بہتے دریا کے نالے انتہائی بپھرے ہوئے ہوتے ہیں، مائیں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد پورا وقت پریشان رہتی ہیں کہ نہ جانے وہ کب گھر لوٹیں گے‘۔


موسمیاتی تبدیلی کے خلاف خواتین کا مضبوط کردار


حکومت پاکستان نے ایک جینڈر کلائمیٹ چینج ایکشن پلان 2022ء تیار کیا ہے جس میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ خواتین موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں کیونکہ سیلابوں کے دوران اور اس کے بعد پھیلنے والی بیماریوں سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں۔

Title of the document

ماہر جنگلات اور نباتیات فوزیہ بلقیس، انٹرنیشنل یونین فار کنورزیشن آف نیچر ( آئی یو سی این) سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے حکومت پاکستان کی کلائمیٹ چینج جینڈر ایکشن پلان 2021ء پالیسی بنانے میں معاونت بھی کی تھی۔ ہمیں بتاتی ہیں کہ ’کلائمیٹ چینج یا موسمیاتی تبدیلی سے آنے والے سیلاب یا خشک سالی سے خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں کیونکہ پاکستانی معاشرے میں گھر کو سنبھالنا خاتون خانہ کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ گو کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی معاشی حالت اچھی نہیں ہوتی لیکن اگر منصوبہ سازی یا موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی بات کی جائے تو خواتین زیادہ بہتر طور پر اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔

’اس لیے نیشنل کلائمیٹ ایکشن پلان پر عمل درآمد ضروری ہے۔ یہ ایک اہم دستاویز ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں خواتین کی شمولیت یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے‘۔


’موسم کی سختیاں خواتین کو زیادہ متاثر کرتی ہیں‘


فرحین سیام ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے جینڈر امپاورمنٹ، زراعت اور فوڈ سیکیورٹی پروگرام کی منیجر ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’سب سے پہلے ہماری کوشش ہے کہ ماحولیاتی تبدیلوں کی وجہ سے دیہی خواتین کی معاشی حالت بہتر کی جائے، ہم جانتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جہاں کئی فصلیں متاثر ہورہی ہیں وہیں روئی کی پیداوار کو بھی تشویشناک خطرات لاحق ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ مختلف ذرائع سے خواتین کی آمدن بڑھائی جائے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’وہ خواتین جو گندم، چاول، روئی یا مکئی کی فصلوں پر کام کرتی تھیں، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ان کا کام شدید متاثر ہوا ہے۔ اس طرح خواتین موسم کی سختیوں کے ساتھ ساتھ معاشی مصائب سے بھی نبردآزما ہیں‘۔


ماحولیاتی ماہرین کیا کہتے ہیں؟


کراچی اربن لیب کے ڈاکٹر توصیف احمد کہتے ہیں کہ ’دنیا کے بڑے شہروں میں خواتین کمیونٹی موبلائزرز کے طور پر آگے آرہی ہیں اور پانی کے تحفظ، درخت لگانا، کچرے کا انتظام کو بہتر بنانے میں کردار ادا کر رہی ہیں۔ اسی طرح کراچی جیسے شہروں میں چھوٹے رقبے کے ساتھ کچن گارڈننگ، پانی کی بچت کے طریقوں پر کام کیا جاسکتا ہے۔ خواتین کی قیادت والی تنظیمیں اور جماعتیں وقت کی ضرورت ہیں جن کے ذریعے ماحولیاتی موافقت کی حکمت عملیوں جیسے آفات سے نمٹنے کی تیاری، کچرے کا انتظام اور گرمی کی لہر یعنی ہیٹ ویو کے انتظام پر علاقائی سطح پر کام کیا جاسکتا ہے‘۔

سندھ مدرسہ السلام کی ماحولیات کی سربراہ ڈاکٹر حنا سرفراز نے ہمیں بتایا کہ خواتین دنیا کی نصف خوراک کی پیداوار کی ذمہ دار ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں وہ 80 فیصد تک خوراک کی پیداوار میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’خواتین کاشتکاروں نے آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے اور اس کے مطابق ڈھلنا سیکھ لیا ہے۔ مثال کے طور پر خواتین فطرت کے ساتھ ہم آہنگ پائیدار زراعت پر عمل، خشک سالی کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیجوں، کم اثر یا نامیاتی مٹی کے انتظام کی تکنیکوں کو استعمال یا کمیونٹی کی بنیاد پر جنگلات کی بحالی کی کوششوں کی قیادت کررہی ہیں‘۔

مطالعہ ماحولیات سندھ مدرسہ السلام کراچی کے لیکچر خالد حسن کا کہنا ہے، ’آج ہم جانتے ہیں کہ موسم میں جیسے ہی شدت آتی ہے، پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے خطوں میں خشک سالی اور بن موسم بارشوں نے تباہی مچا رکھی ہے اور ان کے باعث دیہی عورتیں زیادہ محنت کرتی ہیں۔ وہ نقل مکانی کرتی ہیں اور اپنے کنبوں کے لیے آمدن اور وسائل حاصل کرنے میں زیادہ وقت گزارتی ہیں۔ انہیں صنفی بنیاد پر تشدد کے بڑھتے ہوئے خطرات بھی لاحق ہیں کیونکہ آب و ہوا کی تبدیلی موجودہ تنازعات، عدم مساوات اور کمزوریوں کو بڑھاتی ہے‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’جب شدید موسمیاتی آفات آتی ہیں تو مردوں کے مقابلے میں خواتین اور بچوں کی اموات کا امکان 14 گنا زیادہ ہوتا ہے کیونکہ خواتین اور بچوں کو معلومات تک محدود رسائی، محدود نقل و حرکت اور وسائل کی کمی کا سامنا زیادہ ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بے گھر ہونے والے 5 افراد میں سے 4 خواتین ہوتی ہیں جبکہ مردوں کے مقابلے میں شدید موسمیاتی آفات خواتین کی جنسی اور تولیدی صحت پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں‘۔

ڈائریکٹر قدرتی وسائل، سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی محمد عمران صابر کہتے ہیں کہ ’قدرتی آفات میں دیہی خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ دیہی خواتین کو بارش کے پانی کو محفوظ کرنے سے لے کر بہتر بیج اور ایک ہی جگہ مختلف اناج اُگانے کی ترغیب دینا ضروری ہے۔ سندھ اور بلوچستان جہاں سخت موسم اور پانی کی قلت ہے وہاں خواتین کو پانی محفوظ کرنے کے طریقے سکھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین کو ترغیب دی جائے تو وہ سیلاب سے محفوظ گھر بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں‘۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔