پاکستان

جسٹس منصور علی شاہ کی بطور انتظامی جج سپریم کورٹ ذمہ داریاں ادا کرنے سے معذرت

جسٹس منصور علی شاہ انتظامی جج کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے، انتظامی فائلوں پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے بطور انتظامی جج سپریم کورٹ ذمہ داریاں ادا کرنے سے معذرت کرلی۔

ڈان نیوز کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے بھیجی گئیں انتظامی فائلوں پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ انتظامی جج کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔

سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور کو منتظم جج سپریم کورٹ مقرر کیا تھا۔

یاد رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی نے چیف جسٹس کے لیے جسٹس یحییٰ آفریدی کا انتخاب کیا تھا اور سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بن سکے تھے۔

گزشتہ دنوں جسٹس منصور علی شاہ نے سیکریٹری جوڈیشل کمیشن کو خط لکھ کر رولز میں آئینی بینچ کے لیے ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار طے کرنے پر زور دیا تھا۔

خط کے مطابق آئینی بینچ میں کتنے ججز ہوں اس کا طریقہ کار بنانا بھی ضروری ہے اور آئینی بینچ میں ججز کی شمولیت کا پیمانہ طے ہونا چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کس جج نے آئینی تشریح والے کتنے فیصلے لکھے یہ ایک پیمانہ ہو سکتا ہے، کمیشن بغیر پیمانہ طے کیے سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں آئینی بینچ تشکیل دے چکا ہے۔

اس سے قبل 7 دسمبر کو ایک تقریب کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے مستعفی ہونے کی خبروں کو مسترد کردیا تھا

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران ایک صحافی نے سوال کیا تھا کہ ’کیا آپ کے مستعفی ہونے سے متعلق افواہیں درست ہیں؟ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ ’یہ سب قیاس آرائیاں ہیں‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’بھاگ کر نہیں جائیں گے، جو کام کر سکتا ہوں وہ جاری رکھوں گا‘۔

قبل ازیں، ستمبر میں جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے بعد نئی تشکیل کردہ ججز کمیٹی کو خط لکھ کر اس کا حصہ بننے سے معذرت کرلی تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ آئین کے مطابق پارلیمنٹ قانون بنانے جبکہ سپریم کورٹ اپنے رولز بنانے میں خود مختار ہے اور آرڈیننس کے اجرا کے باوجود پہلے سے قائم کمیٹی کام جاری رکھ سکتی تھی۔