دنیا

ناسا کے خلائی جہاز کی سورج کے قریب تاریخی پرواز، کائنات کے اہم راز منکشف ہونے کا امکان

یہ ناسا کے جرات مندانہ مشن کی ایک مثال ہے، کائنات کے دیرینہ سوالات کا جواب دینے کے لیے ایسا کچھ کیا گیا ہے جو اس سے پہلے کسی اور نے نہیں کیا تھا، امریکی سائنسدان

امریکی خلائی ادارے ناسا کے معروف ’پارکر سولر پروب‘ نے تاریخ رقم کرتے ہوئے کسی بھی دوسرے خلائی جہاز کے مقابلے میں سورج کے زیادہ قریب پرواز کی اور اس کی ہیٹ شیلڈ 1700 ڈگری فارن ہائیٹ (930 ڈگری سینٹی گریڈ) سے زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کر رہی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اگست 2018 میں لانچ کیا گیا یہ خلائی جہاز، ہمارے ستارے کے بارے میں سائنسی تفہیم کو گہرا کرنے اور زمین پر زندگی کو متاثر کرنے والے خلائی اور موسمی واقعات کی پیش گوئی کرنے میں مدد کرنے کے لیے 7 سالہ مشن پر ہے۔

گزشتہ روز ہونے والی تاریخی پرواز مقامی وقت کے مطابق صبح 6 بج کر 53 منٹ پر ہونی چاہیے تھی، تاہم مشن کے سائنسدانوں کو تصدیق کے لیے جمعہ تک انتظار کرنا پڑے گا، کیونکہ سورج کے قریب ہونے کی وجہ سے ان کا کئی دنوں تک اس جہاز سے رابطہ منقطع رہا ہے۔

اگر زمین اور سورج کے درمیان فاصلہ کسی امریکی فٹ بال فیلڈ کی لمبائی کے برابر ہے، تو خلائی جہاز کو قریب ترین نقطہ نظر کے وقت اختتامی زون سے تقریباً 4 گز (میٹر) کا فاصلہ ہونا چاہیے تھا، جسے ’پیریہیلین‘ کہا جاتا ہے۔

پارکر سولر پروب پروگرام کے سائنسدان آرک پوسنر نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ناسا کے جرات مندانہ مشن کی ایک مثال ہے، جس میں ہماری کائنات کے بارے میں دیرینہ سوالات کا جواب دینے کے لیے ایسا کچھ کیا گیا ہے، جو اس سے پہلے کسی اور نے نہیں کیا تھا، ہم خلائی جہاز سے پہلی اسٹیٹس اپ ڈیٹ حاصل کرنے اور آنے والے ہفتوں میں سائنسی اعداد و شمار حاصل کرنے کا انتظار نہیں کر سکتے۔

ہیٹ شیلڈ اس قدر مؤثر ہے کہ پروب کے اندرونی آلات کمرے کے درجہ حرارت کے قریب رہتے ہیں، تقریباً 85 فارن ہائیٹ (29 سینٹی گریڈ)، کیونکہ یہ سورج کی بیرونی فضا کی کھوج کرتا ہے، جسے ’کورونا‘ کہا جاتا ہے۔

پارکر تقریباً 4 لاکھ 30 ہزار میل فی گھنٹہ (6 لاکھ 90 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے آگے بڑھے گا، جو امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے ٹوکیو تک ایک منٹ سے بھی کم وقت میں پرواز کرنے کے برابر رفتار ہے۔

میری لینڈ کے شہر لوریل میں واقع جان ہاپکنز اپلائیڈ فزکس لیبارٹری (اے پی ایل) کے مشن آپریشنز منیجر نک پنکین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی انسانی ساختہ شے کبھی کسی ستارے کے اتنے قریب سے نہیں گزری، اس لیے پارکر واقعی نامعلوم علاقے سے ڈیٹا بھیج رہا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم سورج کے گرد گھومنے کے بعد اس خلائی جہاز سے بھیجے جانے والے پیغامات سننے کے لیے پرجوش ہیں، ان انتہائی حالات میں داخل ہو کر پارکر سائنسدانوں کو سورج کے کچھ سب سے بڑے رازوں کو سمجھنے میں مدد دے رہا ہے۔

سائنسدان جان سکیں گے کہ شمسی ہوا کیسے شروع ہوتی ہے؟ ’کورونا‘ نیچے کی سطح سے زیادہ گرم کیوں ہوتا ہے؟ اور خلا میں پھیلنے والے پلازما کے بڑے بادل کیسے بنتے ہیں؟