پاکستان

پی آئی اے کے سابق پائلٹس کا جعلی ڈگری استعمال کرنے کا اعتراف

39 سال کی سروس مکمل کرنے کے بعد 2018 میں ریٹائر ہوئے تھے، تاہم آڈٹ میں ان کی ڈگری جعلی پائی گئی، عارف تارڑ کا اعتراف

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کے 2 پائلٹس اور ایک ایئرہوسٹس سمیت 4 سابق ملازمین نے جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر قومی ایئر لائن میں تقرر یا ترقی حاصل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر پی آئی اے کے 457 ملازمین کے تقرر کے آڈٹ کے بعد 2022 میں ایف آئی اے نے ان تمام ملازمین کو پہلے ہی برطرف یا ریٹائر کر دیا تھا۔

ابتدائی طور پر ان ملازمین نے ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے خصوصی عدالت سے رجوع کرتے وقت جعلی ڈگری کے الزامات سے انکار کیا تھا اور عدالت نے ان کی ضمانت منظور بھی کرلی تھی، تاہم بعد میں فرد جرم عائد ہونے کے بعد سب نے اعتراف جرم کرلیا تھا اور اعترافی بیان ریکارڈ کرانے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔

تاہم جج تنویر احمد شیخ نے ملزمان کو واضح کیا کہ وہ ’اعترافی بیان دینے کے پابند نہیں ہیں‘، اور اگر انہوں نے ایسا کرنے کا فیصلہ کیا تو بعد میں یہی اعترافی بیان ان کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے اور ان بیانات کے بنیاد پر سزا دی جا سکتی ہے۔

عدالت نے انہیں سوچنے کے لیے 30 منٹ کا وقت دیا تاکہ وہ اپنی درخواست پر غور کر سکیں، تاہم اس کے باوجود وہ اپنے اعترافی بیانات ریکارڈ کرانے پر بضد رہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی نازیہ ناہید نے جج کے سامنے اعترافی بیان میں کہا کہ انہیں 5 جولائی 2001 کو 5 سال کے معاہدے پر ایئر ہوسٹس تعینات کیا گیا تھا اور انہوں نے ترقی حاصل کرنے کے لیے بی اے کی جعلی ڈگری جمع کرائی۔

انہوں نے کہا کہ بعد میں جانچ پڑتال کے دوران یہ ڈگری جعلی پائی گئی جس کی وجہ سے انہیں 26 اپریل 2014 کو ملازمت سے برخاست کردیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بے روزگار ہیں، جبکہ ان کے شوہر کی ایک سڑک حادثے میں موت ہو گئی تھی۔

محسن علی نے 2006 میں بطور معاون پائلٹ تعیناتی کے وقت جعلی بی اے کی ڈگری استعمال کرنے کا اعتراف کیا جب کہ اس ملازمت کے لیے بنیادی شرط انٹرمیڈیٹ تھی۔ انہوں نے کہا کہ 2014 میں ان کی جعلی ڈگری کی جانچ پڑتال کے بعد انہیں برطرف کردیا گیا تھا۔

عارف تارڑ نے بتایا کہ وہ 1979 میں پی آئی اے میں چپڑاسی بھرتی ہوئے تھے اور ایف اے کی جعلی ڈگری کا استعمال کرتے ہوئے اسی محکمے میں ڈیٹا انٹری آپریٹر کی نوکری حاصل کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وہ 39 سال کی سروس مکمل کرنے کے بعد 2018 میں ریٹائر ہوئے تھے، تاہم آڈٹ میں ان کی ڈگری جعلی پائی گئی اور انہیں 2022 میں ایف آئی اے کی جانب سے درج ایف آئی آر میں شامل کیا گیا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے کاشان اعجاز نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ وہ 13 نومبر 1995 کو پی آئی اے میں کیڈٹ پائلٹ کے طور پر بھرتی ہوئے اور ملازمت حاصل کرنے کے لیے بی ایس سی کی ڈگری استعمال کی تھی، حالانکہ ملازمت کے لیے بنیادی شرط ایف ایس سی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اضافی اہلیت دکھانے کے لیے بی ایس سی کے لیے اپنی ڈگری استعمال کی جو بعد میں تصدیقی عمل کے دوران جعلی ثابت ہوئی اور مجھے 2019 میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا‘۔

تمام ملزمین نے اپنے اعمال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ تے ہوئے معافی مانگی۔

جج تنویر احمد شیخ نے ملزمان کو ان کے اعترافی بیانات کی روشنی میں قصوروار قرار دیتے ہوئے ان سبھی کو ’عدالت کے اٹھنے تک‘ قید کی سزا سنائی۔

پس منظر

جون 2020 میں اُس وقت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ کمرشل پائلٹس کی ایک بڑی تعداد نے ’مشکوک لائسنس‘ حاصل کر رکھے ہیں۔

جس کے بعد یکم جولائی 2020 کو یورپی یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کردیا تھا، بعد ازاں 8 اپریل 2021 کو یورپی یونین کی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے پر سفری پابندیوں میں غیر معینہ مدت تک توسیع کردی تھی۔

15 ستمبر 2024 کو کراچی میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں پی آئی اے پروازوں کی یورپ اور برطانیہ میں بحالی کے حوالے سے معاملے پر اہم پیشرفت سے آگاہ کیا گیا تھا۔

بورڈ ارکان کو آگاہ کیا گیا کہ پائلٹس کے لائسنس امتحان کے نظام کو مکمل طور پر تبدیل کر کے بحال کر دیا گیا ہے جس سے فلائٹ سیفٹی کے معیار میں بہتری آئی ہے۔

مزید بتایا گیا تھا کہ نومبر میں یورپی ایئر سیفٹی ایجنسی اس معاملے پر جائزہ لے گی، اور اب تک کیے گئے اقدامات کے پیش نظر امید ہے کہ رواں سال کے دوران پی آئی اے کی برطانیہ اور یورپ میں پروازیں بحال ہو جائیں گی۔

یورپی یونین کے اوپر سے پرواز کرنے والی تمام کمرشل اور چارٹرڈ پروازوں کو ٹی سی او کی اجازت حاصل کرنا لازمی ہوتی ہے، ٹی سی او کو 2016 میں نافذ کیا گیا تھا جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ یورپی ممالک میں چلنے والے تمام طیارے انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او) کے حفاظتی معیارات کے مطابق ہوں۔

تمام کمرشل پروازیں ٹی سی او کی اجازت حاصل کرنے کے لیے اپنے طیاروں اور ان سیفٹی پروگرام سے متعلق معلومات یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کو جائزے کے لیے جمع کرواتے ہیں۔