پاکستان نئے فوسل فیول معاہدے کیلئے کوشاں بلاک کا حصہ بن گیا
پاکستان نئے فوسل فیول معاہدے کے لیے کوشاں 16 ممالک کے بلاک کا حصہ بن گیا ہے جس کا مقصد فوسل فیول کا منصفانہ خاتمہ اور کوئلے، تیل اور گیس کی پیداوار کے خطرے سے دور منصفانہ عالمی منتقلی کے لیے مالی معاونت فراہم کرنا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فوسل فیول نان پرولیفریشن ٹریٹی انیشیٹو کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان بحرالکاہل کے چھوٹے جزائر پر مشتمل ریاستوں کی قیادت میں ایک نئے معاہدے پر زور دینے والے اتحاد میں شامل ہوگیا ہے جس کا مقصد فوسل فیول کا منصفانہ خاتمہ اور کوئلے، تیل اور گیس کی پیداوار کے خطرے سے دور منصفانہ عالمی منتقلی کے لیے مالی معاونت فراہم کرنا ہے۔
پاکستان جنوبی ایشیا کا پہلا ملک ہے جس نے اس گروپ کے ساتھ مل کر فوسل فیول معاہدے کی تجویز کے خدوخال کو سمجھا ہے، جس کا مقصد فوسل فیول کی پیداوار کو منصفانہ طور پر ختم کرنا ہے۔
16 ریاستوں پر مشتمل اس گروپ کے ارکان چاروں براعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں وانواتو، تووالو، ٹونگا، فجی، جزائر سلیمان، نیو، اینٹیگوا اور باربوڈا، تیمور لیسٹے، پالاؤ، کولمبیا، ساموا، نورو، مارشل جزائر، مائیکرونیشیا کی وفاقی ریاستیں، پاکستان اور بہاماس شامل ہیں۔
اس اتحاد کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان کے مطابق فوسل فیول ٹریٹی کی تجویز مساوات اور انصاف پر مبنی منتقلی کی وکالت کرتی ہے، جس میں سب سے زیادہ اخراج کا سبب بننے والے امیر ممالک منتقلی کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں جبکہ ترقی پذیر اور موسمیاتی خطرے سے دوچار ممالک کو فوسل فیول سے منتقلی کے لیے مالی اور تکنیکی مدد کی پیشکش کرتے ہیں۔
پاکستان کے علاوہ موسمیاتی مذاکرات میں زیادہ تر چھوٹے جزائر پر مشتمل مذاکراتی بلاک اسمال آئی لینڈ ڈیولپنگ اسٹیٹس (ایس آئی ڈی ایس) نے 2022 میں مصر میں کوپ 27 میں خسارے اور نقصان فنڈ کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اسی طرح، وانواتو نے بھی عالمی عدالت انصاف سے موسمیاتی تبدیلی پر نام نہاد مشاورتی رائے لینے کی کوشش کی قیادت کی۔
الجزیرہ کے مطابق مارچ 2023 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 132 ممالک نے عالمی عدالت انصاف سے رائے لینے کی وانواتو کی تجویز کی حمایت کی تھی جس کے بعد رواں ماہ کے اوائل میں عالمی عدالت میں سماعت ہوئی تھی۔
آگے بڑھنے کا نیا راستہ
اتحاد کی طرف سے شیئر کیے گئے ایک ویڈیو بیان میں وزیر اعظم کی معاون برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ ’ہم بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں تاکہ 16 ممالک کی طرف سے ایک نئے بین الاقوامی راستے کو آگے بڑھانے کے لیے پیش کی گئی تجویز کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لیاجاسکے، جس کا مقصد ایک متعین وقت کے اندر فوسل فیول کا خاتمہ ہے، جو کہ مناسب فنانسنگ اور ٹیکنالوجی کی فراہمی پر منحصر ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان مساوی حل پر بات چیت کو آگے بڑھانے کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور اس سلسلے میں مختلف راستے تلاش کرنے کے لیے بین الاقوامی شراکت داروں کو مائل کرے گا۔
اسلام آباد میں قائم سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ ’اس اقدام سے اس اہم مسئلے سے نمٹنے، فوسل فیول پر ملک کا انحصار کم کرنے اور ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کے عزم کو تقویت ملتی ہے‘۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’مجوزہ معاہدہ ایک فریم ورک پیش کرتا ہے جس میں فوسل فیول کو منصفانہ طور پر مرحلہ وار ختم کرنے کی حمایت کی گئی ہے جبکہ ہم جیسے ممالک کو صاف توانائی کی طرف منتقلی کے لیے ترقی یافتہ ممالک سے انتہائی ضروری مالی اور تکنیکی معاونت کی فراہمی کو ترجیح دی گئی ہے۔
کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر سنجے واشسٹ نے اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کا مقصد صرف صاف توانائی کی طرف منتقلی نہیں ہے بلکہ یہ انصاف، مساوات اور اس بات کو یقینی بنانے کے بارے میں ہے کہ بحران کے سب سے کم ذمہ دار ممالک کو اس کے بدترین اثرات برداشت کرنے کے لیے تنہا نہ چھوڑا جائے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ وہ دوسرے ممالک کو ایک نئے عالمی فریم ورک کی تیاری میں تعاون کی ترغیب دے جو سب کے لیے منصفانہ منتقلی کا ضامن ہو۔‘
اتحاد کے مطابق فوسل فیول کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک ٹھوس اور پابند منصوبے کی ضرورت تھی اور دہائیوں کے مذاکرات کے باوجود بہت سی حکومتیں اب بھی کوئلے، تیل اور گیس کے نئے منصوبوں کی منظوری دے رہی تھیں جس سے درجہ حرارت کو 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے امکانات خطرے میں تھے۔
ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ ’لوگوں کو ہماری آب و ہوا، ہماری صحت اور ہمارے مستقبل کو فوسل فیول سے لاحق خطرے سے بچانے کے لیے 16 ممالک کا ایک بڑھتا ہوا بلاک فوسل فیول معاہدے کے لیے مذاکرات کا مینڈیٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘۔
مزید کہا گیا ہے کہ مجوزہ معاہدہ پیرس معاہدے کی تکمیل کرے گا تاکہ منصفانہ مرحلے کا انتظام کیا جاسکے اور توانائی کی حقیقی منصفانہ منتقلی کی بنیاد رکھی جاسکے۔
تاہم، اس بات پر مایوسی کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ فوسل فیول کو واضح طور پر موسمیاتی بحران کے مرکزی محرک قرار دیے جانے کے باوجود دنیا کے سرکردہ موسمیاتی معاہدے میں ان کا ایک بار بھی ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ رواں سال نومبر میں باکو میں کوپ29، کوپ28 توانائی کے اہداف سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا تھا، جس میں فوسل ایندھن سے دور منتقلی کا ذکر کیا گیا تھا۔
کانفرنس میں جسٹ ٹرانزیشن ورک پروگرام پر بھی کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی جس کا مقصد معلومات کے تبادلے کے ذریعے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کم کاربن والی معیشتوں کی طرف منتقلی میں کسی کو پیچھے نہ دھکیلا جائے۔