دنیا

فرانس: گستاخانہ خاکوں پر مہم چلانے والے 8 افراد کو 16 سال تک قید کی سزا

فرانس کی ایک عدالت نے ٹیچر کے قتل کیس میں مرکزی ملزم کے 2 ساتھیوں کو 16 سال قید کی سزا سنائی۔

فرانس کی ایک عدالت نے اسکول میں حضور اکرم ﷺ کے شان میں گستاخی کے الزام میں قتل کیے گئے استاد کی گستاخی پر ’مہم‘ چلانے کے الزام میں 8 افراد کو ایک سے 16 سال تک قید کی سزا سنا دی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اکتوبر 2020 میں طلبہ کو گستاخانہ دکھانے کے واقعے کے چند روز بعد ایک شخص نے 47 سالہ استاد سیموئل پیٹی کا سر قلم کردیا تھا، جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ عدالت نے جن افراد کو سزائیں دی ہیں، ان میں ایک طالب علم کے والد بھی شامل ہیں، جن پر الزام تھا کہ انہوں نے جھوٹی پوسٹ کے ذریعے مڈل اسکول کے استاد کو نشانہ بنانے والی سوشل میڈیا پوسٹوں کی ایک لہر کو جنم دیا۔

براڈکاسٹر ’فرانس انفو‘ کے مطابق عدالت نے براہیم چنینا کو مجرمانہ دہشت گرد تنظیم کے ساتھ تعلق کے جرم میں 13 سال قید کی سزا سنائی۔

براہیم چنینا پر الزام تھا کہ اس نے ایسی ویڈیوز شائع کیں، جن میں مذکورہ استاد پر ان کی بیٹی کو کلاس کے بارے میں شکایت کرنے پر نظم و ضبط کے تحت سزا دینے کا جھوٹا الزام لگایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ایک اسلامی تنظیم کے بانی عبد الحکیم سیفروئی کو 15 سال قید کی سزا دی گئی، براہیم چنینا اور عبد الحکیم دونوں کو استاد سیموئل پیٹی کے خلاف نفرت بھڑکانے کا قصوروار پایا گیا۔

فرانسیسی میڈیا کے مطابق عبد الحکیم سیفریوئی کے وکیل نے بتایا کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔

براڈکاسٹر فرانس انفو نے رپورٹ کیا کہ سیموئل پیٹی کو ہلاک کرنے والے عبداللہ انزوروف کے 2 ساتھیوں نعیم بوداؤد اور عظیم ایپسرخانوف کو دہشت گردی کرکے قتل میں ملوث ہونے پر 16 سال قید کی سزا سنا دی گئی، تاہم دونوں نے اس الزام کو مسترد کردیا۔

گزشتہ برس ایک عدالت نے براہیم چنینا کی بیٹی اور 5 دیگر نوجوانوں کو ایک سوچی سمجھی سازش میں حصہ لینے اور گھات لگا کر حملہ کرنے میں مدد کرنے کا قصوروار پایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق براہیم چنینا کی بیٹی کو جھوٹے الزامات اور تہمت آمیز تبصرے کرنے کی سزا سنائی گئی کہ وہ اس وقت کلاس میں موجود نہیں تھی، جب مقتول استاد نے کلاس میں گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

فرانسیسی میڈیا نے بتایا کہ 13 سالہ لڑکی نے یہ الزامات اس وقت لگائے تھے، جب اس کے والدین نے سوال کیا کہ اسے 2 دن کے لیے اسکول سے کیوں معطل کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2020 کے وسط میں فرانس کے ایک اسکول میں استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

اس واقعے کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو ’ہیرو‘ اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو ’مجسم‘ بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔