بھارت میں شادی سے قبل دلہا، دلہن کی جاسوسی کا بڑھتا کاروبار
پڑوسی ملک بھارت میں شادیوں سے قبل دلہا اور دلہن کے حوالے سے مکمل اور درست تفتیش کے لیے وہاں نجی جاسوس اداروں کے کاروبار میں تیزی دیکھی جا رہی ہے، اب لوگ رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے سے قبل تفتیش کروانے کو اولیت دینے لگے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایجنسی فرانس پریس‘ (اے ایف پی) کے مطابق بھارت کے بڑے شہروں میں تیزی سے شادی سے قبل دلہا اور دلہن کی جاسوسی یا تفتیش کے لیے متعدد ادارے سامنے آ رہے ہیں۔
ایسے ہی چند ادارے دارالحکومت نئی دہلی میں بھی کام کر رہے ہیں جو پیسوں کے عوض والدین سمیت دلہا اور دلہن کو اپنے ہونے والے شریک حیات سے متعلق تفتیش کرکے دیتے ہیں۔
شادی سے قبل ہونے والے داماد سے متعلق تفتیش کروانے کے لیے آنے والی ایک 48 سالہ ملازمت پیشہ خاتون شیلا (نام تبدیل کردیا گیا) نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ جب ان کی بیٹی نے ان سے اپنے بوائے فرینڈ سے شادی کرنے کا کہا تو انہوں نے جاسوسوں سے ہونے والے ممکنہ داماد کی تفتیش کروائی۔
انہوں نے بتایا کہ چوں کہ ان کی اپنی شادی ناکام ہوئی تھی، اس لیے وہ چاہتی تھیں کہ بیٹی کی زندگی بھی خراب نہ ہو اور انہوں نے بیٹی سے خفیہ طور پر اپنے ہونے والے داماد کی تفتیش کروائی۔
شادی سے قبل دلہا اور دلہن کی جاسوسی کرنے والا ادارہ چلانے والی 48 سالہ بھوانا پالیوال نے بتایا کہ ماضی کے مقابلے اب ان کا کام زیادہ بہتر انداز میں چل رہا ہے، اس وقت وہ ماہانہ 8 کیسز کی تفتیش کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے دو دہائیاں قبل شادی سے قبل دلہا اور دلہن کی جاسوسی کا کام شروع کیا تھا اور اب ان کا دفتر شہر کے مرکزی علاقے کے ایک شاپنگ مال میں ہے اور انہوں نے دفتر کے باہر ’نجومی‘ کا بورڈ آویزاں کر رکھا ہے۔
انہوں نے ایک کیس کی مثال دی کہ ایک لڑکی نے انہیں شادی سے قبل ہونے والے شوہر کی تنخواہ سے متعلق تفتیش کرنے کا کہا، جس پر معلوم ہوا کہ لڑکے نے ان سے جھوٹ بولا تھا۔
ان کے مطابق لڑکے نے انہیں بتایا تھا کہ وہ سالانہ 70 ہزار امریکی ڈالر سے زائد کماتے ہیں جب کہ درحقیقت وہ سالانہ 7 ہزار امریکی ڈالر سے زائد کماتے تھے۔
بھوانا پالیوال کی طرح اکرتی کھتری بھی نئی دہلی میں شادی سے قبل دلہا اور دلہن کی جاسوسی کا دفتر چلاتی ہیں اور ان کے ماتحت متعدد جاسوس کام کرتے ہیں جو اچھی طرح تفتیش کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ان کے پاس آنے والے کیسز میں چوتھائی کیسز کا تعلق شادی سے قبل کی جاسوسی سے ہوتا ہے اور نہ صرف لڑکیاں بلکہ لڑکے بھی شادی سے قبل ہونے والی بیوی سے متعلق تفتیش کرواتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات لڑکیاں اور ان کے گھر والے یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ لڑکا کس طرح کے جنسی رجحانات رکھتا ہے، کہیں وہ ہم جنس پرستی کی طرف مائل تو نہیں۔
اکرتی کھتری کا کہنا تھا شادی سے قبل دلہا اور دلہن کی جاسوس کے لیے وہ مختلف ٹیکنالوجی آلات کا بھی استعمال کرتے ہیں، جن میں خفیہ چھوٹے کیمروں سے ریکارڈنگ، آڈیو ریکارڈنگ سمیت سوشل میڈیا پر جاسوسی بھی شامل ہے۔
ان کی طرح سنجے سنگھ بھی نئی دہلی میں شادی سے قبل دلہا اور دلہن کی جاسوسی کا دفتر چلاتے ہیں اور ان کے پاس بھی تجربہ کار نجی جاسوس ہیں جو انتہائی رازاداری اور اخلاقی طور پر لڑکے اور لڑکی کی جاسوسی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں بھارت میں سوشل ویب سائٹس پر بھی رشتے آنے لگے ہیں اور وہیں سے خاندانوں میں رشتے بھی ہونے لگے ہیں، جس پر بہت سارے لوگوں کو رشتہ طے کرنے سے قبل تفتیش کی ضرورت پڑتی ہے، ایسے لوگ ان جیسے اداروں سے رجوع کرتے ہیں۔
شادی سے قبل دلہا اور دلہن کی جاسوسی کرنے والے ادارے چلانے والے افراد کا کہنا تھا کہ بھارت میں تیزی سے تبدیل ہوتا معاشرہ اب پہلے سے مختلف ہوتا جا رہا ہے اور لوگوں کے پاس کسی سے متعلق کوئی تفتیش نہیں ہوتی، اس لیے وہ جاسوسی کرنے والوں کی خدمات لیتے ہیں۔