نقطہ نظر

سالنامہ: ’معاشی اعتبار سے پاکستان کے لیے 2024ء بہتری کا سال رہا‘

حکومت کی جانب سے لیے گئے سخت فیصلوں کے بعد اصلاحات کے نتیجے میں 2024ء میں معیشت میں تیزی سے بہتری دیکھنے میں آئی۔

سال 2024ء میں جہاں پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال نے عوام کو مایوس کیا، وہیں یہ مایوسی اس قدر گہری ہے کہ عوام معیشت میں ہونے والی مثبت پیش رفت کو اہمیت دینے کو ہی تیار نہیں ہیں۔ پاکستانی معیشت گزشتہ تین برس میں جس قدر تیزی سے تبدیلی ہوئی ہے، یہ بہت کم ممالک کو دیکھنے میں آتا ہے۔

پاکستان میں دیکھا جائے تو سال 2022ء سے شروع ہونے والا سیاسی عدم استحکام تاحال برقرار ہے۔ مگر سال 2022ء میں پاکستان کو جن معاشی چیلنجز کا سامنا تھا اور سری لنکا کے ڈیفالٹ کے بعد یہ باتیں کی جارہی تھیں کہ پاکستان بھی جلد دیوالیہ ہوجائے گا، اس وقت سیاسی عدم استحکام نے اس خدشے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پاکستان نے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی کوشش کی تو سیاسی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ آئی ایم ایف کو خط لکھے گئے کہ پاکستان کو مشروط قرض دیا جائے۔ آئی ایم ایف نے بہ ظاہر تو اس خط کو اہمیت نہیں دی لیکن سخت ترین شرائط پر پاکستان کو قرض دینے کا معاہدہ کیا۔

اس نے پاکستان کے سامنے تیزی سے اپنا ٹیکس ریونیو بڑھانے کے علاوہ حکومت کو پرائمری سرپلس پیدا کرنے، سرکاری کاروباری اداروں کی نجکاری کرنے، پینشن کو بجٹ سے ہٹا کر فنڈ کے ذریعے فراہم کرنے، ایف بی آر میں اصلاحات کرنے اور زرعی انکم ٹیکس عائد کرنے کی کڑی شرائط رکھیں۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت کو سخت فیصلے کرنا پڑے اور 70 برس سے جاری سبسڈیز کو ایک سال میں ختم کرنا پڑا جس سے تیزی سے افراطِ زر میں اضافہ ہوا اور موجودہ حکومت جو پہلے ہی سیاسی عدم استحکام سے نبردآزما تھی، سیاسی قیمت ادا کرنا پڑی اور وہ واضح اکثریت سے حکومت نہ بنا سکی۔

تاہم سخت فیصلوں کے بعد معاشی اصلاحات کے نتیجے میں تیزی سے بہتری آرہی ہے اور اس کا اعتراف غیر ملکی معاشی تحقیقاتی ادارے بھی کررہے ہیں۔ سال 2024ء میں ماضی کے مقابلے میں کیا معاشی بہتری آئی اور ہمارا معاشی مستقبل کیسا ہوگا؟ آئیے اس کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔

حکومت پاکستان گزشتہ دو مالی سال سے اپنے اخراجات محدود کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ پرائمری سرپلس پر کام کررہی ہے یعنی اگر سود کے اخراجات کو الگ کردیا جائے تو حکومت کی آمدنی اور اخراجات برابر ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسی طرح حکومت نے اپنے اخراجات کو قابو میں رکھا تو آئندہ چند سالوں میں حکومتی مالیات میں سود کی ادائیگی اور قرض کے بوجھ میں بھی کمی واقع ہوگی۔

حکومت نے سب سے پہلے سال 2007ء میں پرائمری سرپلس حاصل کیا تھا جس کے بعد مالی سال 2024ء-2023ء میں حکومت نے 952 ارب روپے کا پرائمری سرپلس حاصل کیا جو کہ جی ڈی پی کا 0.9 فیصد ہے۔ اسی طرح گزشتہ مالی سال میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 6.8 فیصد تھا جبکہ رواں مالی سال میں یہ خسارہ جی ڈی پی کا 7.7 فیصد ہے۔ آئی ایم ایف شرائط کے مطابق حکومت اس سرپلس کو رواں مالی سال میں بھی جاری رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔

جولائی سے شروع ہونے والی مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 3 ہزار ارب روپے کا پرائمری سرپلس ریکارڈ کیا گیا جوکہ جی ڈی پی کا 2.4 فیصد ہے۔ یہ حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے اور اس کے اثرات مجموعی کاروباری ماحول اور اسٹاک مارکیٹ پر مرتب ہورہے ہیں جو دیکھے بھی جاسکتے ہیں۔

ملکی معیشت میں مسائل کی بڑی وجہ معاشی سرگرمیوں کے مقابلے میں ٹیکسز کی وصولی کم ہونا ہے۔ رواں مالی سال میں حکومت نے ٹیکس وصولی کا بڑا ہدف طے کیا ہے۔ حکومت نے غیر ملکی مالیاتی اداروں کی مشاورت، مالی اور تکنیکی معاونت سے وفاقی ادارہ محصولات (ایف بی آر) میں اصلاحات کا عمل شروع کیا ہے۔

حکومت نے رواں مالی سال میں ایف بی آر کو 12 ہزار 970 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف دیا ہے جوکہ گزشتہ مالی سال سے 40 فیصد زائد ہے۔ گزشتہ پانچ ماہ میں ایف بی آر کو 4 ہزار 639 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف ملا تھا جس کے مقابلے میں ایف بی آر 4 ہزار 295 ارب روپے کے ٹیکس وصولی کرسکا یعنی ٹیکس وصولی ہدف سے 344 ارب روپے کم رہی ہے۔

ٹیکس ہدف میں اس کمی پر سیاسی اور معاشی تجزیہ کاروں نے تبصرہ کیا کہ حکومت منی بجٹ لائے گی اور ممکنہ طور پر جو لوگ ٹیکس ادا کررہے ہیں ان پر ٹیکس بوجھ میں اضافہ ہوگا لیکن گزشتہ دنوں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے غیر ملکی سرمایہ کاروں اور میڈیا سے بات چیت میں منی بجٹ کے امکانات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس اہداف میں کمی کے باوجود کوئی منی بجٹ نہیں آرہا ہے اور اس حوالے سے آئی ایم ایف کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔

گزشتہ تقریباً 25 سال سے ایف بی آر کی رپورٹنگ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ہر حکومت نے اس اہم ادارے میں اصلاحات کی کوشش کی ہے لیکن اسے بھرپور کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں ایف بی آر میں ہاتھ سے کاغذ پر انکم ٹیکس ریٹرن بھرنے کا عمل مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔ ٹیکس ڈیٹا بیس بھی بہتر انداز میں اپ ڈیٹ ہورہا ہے مگر اس کے باوجود یہ ادارہ ملک میں ٹیکس بنیاد کو وسیع اور گہرا کرنے میں ناکام ہے۔

پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 9 فیصد کے لگ بھگ رہا ہے جوکہ دنیا کے غریب ممالک کے برابر ہے۔ پاکستان میں ریٹیل، ٹرانسپورٹ، ریئل اسٹیٹ شعبہ جات سے ٹیکس کی وصولی ہمیشہ ایک مسئلہ رہی ہے۔ لابیز، سیاسی عدم استحکام، ہڑتالوں کی وجہ سے حکومت ٹیکس نیٹ کو بڑھانے میں کامیاب نہیں ہوئی تو یہی وجہ تھی کہ اس نے شرح ٹیکس کو بڑھانے پر توجہ دی ہے۔

حکومت ٹیکس اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھا رہی ہے جس میں صوبوں کے ساتھ مل کر زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کے علاوہ ایف بی آر میں بنیادی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں جن پر عمل ہورہا ہے۔ ایف بی آر حکام کے ٹیکس دہندگان سے رابطے کو کم سے کم کرنے کے لیے ڈیجیٹلائزیشن کا عمل جاری ہے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر سروسز میں کام کرنے والے افسران کے لیے بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ ان اصلاحات کے خلاف ٹیکس ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو سروسز آفیسر ایسوسی ایشن کی جانب سے مزاحمت کی جارہی ہے۔ اسی ایسوسی ایشن کی مداخلت پر نگران حکومت کے دوران ایف بی آر آصلاحات پر عمل رک گیا تھا۔

ایف بی آر کے کلچر میں نقد لین دین کیا جاتا ہے تاکہ اپنے ہی افسران کو ٹیکس ادائیگی سے بچایا جاسکے جو چراغ تلے اندھیرا کے مترادف ہے۔ ایف بی آر حکام کو ہاؤس رینٹ اور بجٹ کی تیاری میں کام کرنے پر ملنے والا اعزازیہ نقد ادا کیا جاتا ہے جس پر وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں۔

روپے کی شرح مبادلہ یا ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کے حوالے سے گزشتہ سال حکومت اور اسٹیٹ بینک نے اقدامات کا آغاز کیا تھا اور دو طرفہ مشترکہ کاوشوں سے روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے۔

ایک ڈالر 300 روپے سے تجاوز کر گیا تھا اور مارکیٹ میں 350 تک قیمت جانے کی باتیں ہورہی تھیں۔ مارکیٹ میں ڈالر کے تین ریٹ چل رہے تھے، ایک سرکاری دوسرا اوپن مارکیٹ اور تیسرا ریٹ بلیک مارکیٹ کا تھا۔ ڈالر کی تیزی سے بیرون اسمگلنگ سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا ہوا تھا۔ اس حوالے سے گزشتہ سال ستمبر کے وسط میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، ایف آئی اے، پولیس، رینجرز اور مسلح افواج نے مل کر ڈالر کی اسمگلنگ اور سٹے بازی کے خلاف کارروائیاں شروع کیں اور اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ سال 2024ء کے آغاز پر روپے کی قدر میں استحکام دیکھا جانے لگا اور آئی ایم ایف سے قرض معاہدے کے بعد روپے کی قدر میں مزید بہتری آئی۔

دوسری جانب اسٹیٹ بینک نے بھی کرنسی کی اوپن مارکیٹ میں اصلاحات کا جامع منصوبہ دیا جس میں بی ٹائپ کی ایکسچینج کمپنیز کا خاتمہ، ایکسچینج کمپنیز کا ادا شدہ سرمایہ 20 لاکھ روپے سے بڑھا کر 50 لاکھ روپے کرنے، انضمام اور فروخت کا موقع دینے کے ساتھ ساتھ 10 بینکوں کو بھی ایکسچینج کمپنیز بنانے کی ہدایت کی۔ اس عمل سے چھوٹی اور کم سرمائے کی ایکسچینج کمپنیز کی جگہ بڑی اور مالی طور پر مستحکم ایکسچینج کمپنیز وجود میں آئیں۔ روپے کی شرح مبادلہ کے کاروبار میں بینکوں کے آنے سے اوپن مارکیٹ کو مزید مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے۔

انتظامی اور پالیسی سطح کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں روپے کی قدر میں استحکام دیکھا گیا ایک ڈالر جوکہ جنوری میں 280 روپے کا تھا، اب یہ 277 روپے کا ہوچکا ہے۔ اس عمل سے پاکستان میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے۔

لیکن کیا جس سطح پر اب ڈالر موجود ہے کیا یہ اس کی درست قیمت ہے اور کیا ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید بہتری نہیں آنی چاہیے؟

اس بحث کا آغاز دسمبر کے آغاز پر ہوا۔ چند بیرونی اور اندرونی معاشی تجزیہ کاروں نے اپنی رپورٹس میں یہ کہنا شروع کیا کہ روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 24 فیصد یا 67 روپے زیادہ ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 210 سے 215 روپے کے درمیان ہونی چاہیے۔ اسٹیٹ بینک مارکیٹ سے ڈالر خرید کر زرمبادلہ ذخائر کو بہتر بنا رہا ہے اور ڈالر کو اوور ویلیو رکھا ہوا ہے جبکہ حکومت نے دعویٰ کیا کہ روپے کی قدر مارکیٹ پر مبنی ہے اور اس میں وہ کوئی مداخلت نہیں کررہے ہیں۔

سال 2023ء میں دنیا کو وبائی مرض کورونا سے مکمل طور پر نجات حاصل کرنے کے بعد معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے کا موقع ملا جیسے ہی دنیا کی معشیت بحال ہوئی کورونا کے دوران فراہم کی گئی مالی معاونت کی وجہ سے لوگوں کے پاس زیادہ سرمایہ آگیا اور معیشت اس سرمائے کو جذب کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ اس کی وجہ سے دنیا کی تقریباً تمام معیشتوں میں افراطِ زر دیکھا گیا۔ امریکا، یورپ کینیڈا سمیت تمام بڑی معیشتوں میں افراطِ زر کے دہائیوں پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ دوسری طرف روس-یوکرین جنگ نے یورپ کو سلامتی اور معاشی عدم تحفظ کا شکار کردیا۔

سال 2023ء میں عالمی سطح پر انفلیشن 6.9 فیصد دیکھا گیا جوکہ 1996ء کے بعد بلند ترین سطح ہے۔ یہ سال 2024ء میں کم ہوکر 4.1 فیصد سے 5.8 فیصد کی رینج میں آگیا ہے۔

افراطِ زر کنٹرول کرنے میں پاکستان نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ مئی 2023ء میں پاکستان میں افراطِ زر کی شرح 38 فیصد تھی جوکہ تاریخ کی بلند ترین سطح تھی۔ سال 2023ء میں گزشتہ سال کے مقابلے افراط زر میں 10.89 فیصد کا اضافہ ہوا اور 2023ء میں اوسط انفلیشن 30.77 فیصد رہا۔ سال 2024ء کے آغاز پر افراطِ زر میں کمی دیکھی جانے لگی اور یہ جنوری میں 28.3 فیصد کی سطح پر آگیا۔ حکومتی اقدامات، روپے کی قدر میں بہتری، معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور آئی ایم ایف پروگرام کے بعد ملک میں معاشی استحکام دیکھا گیا اور مہنگائی میں بتدریج کمی دیکھی جانے لگی اور نومبر 2024ء میں افراطِ زر کی شرح 4 فیصد کی سطح پر آگئی۔

قیمتوں میں اضافے کی شرح جوکہ مئی 2023ء میں 38 فیصد تھی، اب یہ شرح کم ہوکر 4 فیصد رہ گئی ہے۔ پہلے ہر 100 روپے پر 38 روپے کا اضافہ ہورہا تھا جوکہ اب صرف 4 روپے رہ گیا ہے۔

قیمتوں میں اضافے کا عمل رکنے کے باوجود عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ اس کا اعتراف وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کراچی میں میڈیا سے بات چیت میں بھی کیا اور اسی لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پہلے مرحلے میں دالوں اور مرغی کی قیمتوں میں اضافے پر نوٹس لے کر پرائس کمیٹوں کو فعال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس کے باوجود اگر پھر بھی عوام کے حق میں قیمتیں کم نہ ہوئیں تو پھر حکومت مختلف اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پاکستان میں گزشتہ 30 سال میں جو بھی صنعت کاری ہوئی وہ زیادہ تر مقامی طلب کو پورا کرنے کے لیے کی گئی اور ان میں سے بیشتر صنعتوں کا خام مال بیرونِ ملک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال گاڑیوں کی صنعت ہے جس میں نئی گاڑیوں کو پرزہ جات کو درآمد کیا جاتا ہے اور پھر انہیں مقامی پارٹس کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اسی طرح ادویات سازی کی صنعت ہو یا کمیکلز کی، صنعتوں میں خام مال کو درآمد کیا جاتا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صنعتیں درآمدی خام مال پر آپریٹ کرتی ہیں، جس کی وجہ سے جیسے ہی معیشت کی ترقی 4 فیصد سے اوپر جاتی ہے بیرونی کھاتوں کا خسارہ سر اٹھانے لگتا ہے۔

سال 2024ء پر نظر ڈالی جائے تو جولائی 2023ء میں خسارہ 81 کروڑ ڈالر تھا جس میں بتدریج کمی دیکھی گئی اور جنوری 2024ء میں یہ خسارہ 30 لاکھ ڈالر رہ گیا تھا جبکہ اگست سے بیرونی ادائیگیوں میں خسارے کے بجائے بچت ہونے لگی ہے۔ اگست میں 2.9 کروڑ ڈالر، ستمبر میں 8.6 کروڑ ڈالر اور اکتوبر میں 34.9 کروڑ ڈالر بچت ہوئی۔

کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ، بچت میں تبدیل ہونے کی متعدد وجوہات ہیں جن کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ برآمدات بڑھ رہی ہیں اور محض اکتوبر میں برآمدات 12 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ ترسیلاتِ زر پاکستان میں زرمبادلہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں جس میں بھی تیزی سے بہتری آرہی ہے۔ رواں مالی سال یہ توقع کی جارہی ہے کہ ترسیلاتِ زر 35 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گی۔

اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے متعارف کردہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں بھی سرمائے میں اضافہ ہورہا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کھول رہے ہیں اور اس میں رقوم منتقل کر رہے ہیں۔ جنوری 2024ء میں یہ رقم 7.1 ارب ڈالر تھی جوکہ نومبر تک بڑھ کر 9.1 ارب ڈالر ہوچکی ہے۔

توانائی ملکی درآمدات میں سب سے بڑا شعبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی منڈی میں ایندھن کی قیمت سستی ہونے سے بھی پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اگر ایندھن کی قیمت میں نمایاں اضافہ نہ ہوا تو ملکی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بجائے سرپلس رہنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک سے متعلق قانون میں مہنگائی کو کم کرنا مرکزی اور بنیادی کام قرار دیا گیا ہے۔ مہنگائی کو ایک حد میں رکھنے کے لیے مرکزی بینک مانیٹری پالیسی کو بطور ٹول استعمال کرتا ہے۔ مانیٹری پالیسی کے ذریعے معیشت میں زیرِگردش کرنسی کو کنٹرول کرنا اور روپے کی قدر کو غیر ملکی کرنسیز کے مقابلے مستحکم رکھنا ہوتا ہے۔

رواں مالی سال مہنگائی میں اضافے یعنی افراطِ زر کے تیزی سے نیچے آنے کی وجہ سے اسٹیٹ بینک نے بھی بنیادی شرح سود میں کمی کا عمل شروع کیا۔ پاکستان میں سال 2021ء سے ہی افراط زر 10 فیصد سے زائد تھا جس کی وجہ سے بنیادی شرح سود میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ جولائی 2023ء میں بنیادی شرح سود 21.5 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔ جون 2024ء تک بنیادی شرح سود اسی بلند ترین سطح پر برقرار رہی جس کے بعد افراط زر میں تیزی سے کمی کی وجہ سے مہنگائی میں کمی ہونا شروع ہوئی اور دسمبر 2024ء میں بنیادی شرح سود 13 فیصد ہوچکی ہے جبکہ افراط زر 5 سے 6 فیصد کے درمیان ہے۔

ایک طویل عرصے بعد مہنگائی بنیادی شرح سود سے کم ہوئی ہے جس سے بینکوں کو حقیقی منافع کمانے میں فائدہ ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنی جیسی معیشت کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اگر اصلاحات کا عمل جاری رہا تو آنے والے دنوں میں پاکستانی معیشت میں مزید استحکام آسکتا ہے۔

پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ چین، ہانگ کانگ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے بڑے ممالک ہیں جبکہ گزشتہ دو سالوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے وہ حکومتی سطح اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے علاوہ سعودی حکومت کی ایما پر نجی سعودی سرمایہ کار بھی پاکستان آرہے ہیں۔ سعودی سرمایہ کاروں کی جانب سے اس سال دو دورے کیے گئے ہیں جن میں متعدد معاہدے بھی طے پائے گئے اور ان پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے۔

سعودی حکومت پاکستان کے ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کی خواہش مند ہے جبکہ سعودی ایندھن کی سب سے بڑی کمپنی’آرامکو’ نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا آغاز کردیا ہے۔ پاکستان میری ٹائم شعبے خصوصاً بندرگاہوں میں گزشتہ تین سال سے علاقائی اور یورپی سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ مالی سال میں 1.9 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 77 کروڑ ڈالر سے زائد رہی جوکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے سے 48 فیصد زائد ہے۔

1970ء کی دہائی میں حکومت نے نجی شعبے کے کاوربار کو نیشنلائز اور اپنے کاروباری ادارے کھڑے کرنے کا عمل شروع کیا مگر یہ ادارے حکومت کی آمدنی کا سبب بننے کے بجائے قومی خزانے پر بوجھ بن چکے ہیں۔ سال 2008ء میں سیاسی حکومتوں کے قیام اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بعد نجکاری کا عمل تقریباً رک گیا تھا جسے دوبارہ بحال کردیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق ریاستی کاروباری ادارے یومیہ 2.2 ارب کا نقصان قومی خزانے کو پہنچا رہے ہیں جبکہ گزشتہ 10 سال میں 6 ہزار ارب روپے سے زائد خسارہ ہوچکا ہے۔

حکومت نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ مالی سال 2024ء سے 2029ء تک حکومتی کے ماتحت 24 اداروں کی فروخت کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے جس میں قومی ایئرلائنز سمیت پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل، مالیاتی شعبے میں انشورنس سیکٹر، ایچ بی ایف سی اور بینکس، یوٹلیٹی اسٹورز، صنعت اور توانائی کے شعبے کی کمپنیز شامل ہیں۔

نگران حکومت کے دور میں پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کی گئی تھی لیکن چند مسائل کی وجہ سے نجکاری کا عمل ناکام رہا اور صرف 10 ارب روپے کی بولی موصول ہوئی اور اب ٹیکس چھوٹ کے ساتھ اس عمل کو دوبارہ شروع کیا جارہا ہے۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں حالیہ عرصے میں تیزی دیکھی جارہی ہے اور اس تیزی پر سیاسی اور غیر سیاسی سطح پر مختلف نوعیت کے تبصرے سامنے کیے جارہے ہیں۔ کوئی اسے سٹے بازی کا اڈا قرار دے رہا ہے اور کوئی اس کو معشیت میں بہتری کا اشارہ قرار دے رہا ہے۔ اس زاویے کا جائزہ زیرِنظر ہے۔

معاشی اشاریوں کی بحالی سے اسٹاک ایکسچینج میں شامل کمپنیز کے مالیاتی نتائج میں بہتری آرہی ہے اور متوقع طور پر وہ بہتر نفع یا ڈیوڈنٹ اپنے سرمایہ کاروں کو منتقل کریں گی جس کی بنیاد پر سرمایہ کار حصص کی خریداری کررہی ہیں۔

سال 2024ء کے آغاز پر کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس 64 ہزار 661 پوائٹنس پر تھا جوکہ 13 دسمبر کو بڑھ کر ایک لاکھ 14 ہزار 301 ہوگیا ہے۔ اس طرح تقریباً ایک سال سے کچھ کم عرصے میں انڈیکس میں 49 ہزار 640 پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے جوکہ کسی بھی اسٹاک مارکیٹ میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔

اس طرح مارکیٹ میں موجود کمپنیز کی مجموعی مالیت 14 ہزار 855 ارب روپے چکی ہے جوکہ ڈالر میں 52.45 ارب روپے ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں درج کمپنیز کی مالیت سال 2013ء میں 100 ارب ڈالر ہوئی تھی جس کے بعد مارکیٹ انڈیکس میں کمی اور روپے کی قدر کم ہونے سے مارکیٹ کی مجموعی مالیت کم ہوگئی تھی اور سب سے زیادہ کمی ڈالر میں ہوئی تھی۔

اسی طرح 2018ء میں کمپنیز کی مجموعی مالیت 100 ارب ڈالر تک دوبارہ پہنچ گئی تھی۔ سیاسی عدم استحکام اور روپے کی قدر تیزی سے کمی نے کمپنیز کی مجموعی قیمت کو مقامی کرنسی اور ڈالر میں کم کیا۔ اب دوبارہ اس تیزی کے باوجود ڈالر میں مارکیٹ میں کمپنیز کی مجموعی مالیت 100 ارب ڈالرز کا تقریباً نصف ہے۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کی مختلف وجوہات ہیں جن میں پاکستان معیشت میں میکرو اکنامک بہتری، حکومت کا سیاسی طور پر مضبوط ہونا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی مارکیٹ میں دلچسپی شامل ہے۔ اسٹاک مارکیٹ ہو یا کوئی بھی کاروبار اس میں سرمایہ کاری مستقبل میں منافع کے لیے کی جاتی ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے سرمایہ کار مستقبل میں معیشت میں بہتری کے امکانات پر سرمایہ کاری کررہے ہیں۔

گزشتہ چند سال کی معاشی ابتری، مہنگائی اور شرح سود کے بڑھ جانے کی وجہ سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار جاری رکھنا مشکل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے بڑی کمپنیز جن کا نیٹ ورک بڑا، مارکیٹ مستحکم اور مضبوط سرمایہ کاری بنیاد ہوتی ہے وہ مشکل وقت میں آگے بڑھ جاتی ہیں اور ان کے منافع میں اضافہ ہوتا ہے۔

پاکستان کی معیشت کو سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی سے بہت سے معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ سال 2018ء تک پاکستان نے اندرونی محاذ پر دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پا لیا تھا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے علاوہ صوبہ بلوچستان میں بھی امن و امان کی صورت حال میں بہتری آئی تھی مگر بعد ازاں پالیسیز میں تبدیلی اور افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں گزشتہ 3 سال سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے ریاست نے بلوچستان میں فوجی آپریشن کے علاوہ خبیرپختونخوا میں خوارج کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ تیز کیا ہے۔ امن امان کی بگڑتی صورت حال کی وجہ سے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو متعدد مسائل درپیش ہیں بالخصوص چینی مفادات کو نشانہ بنانے پر سی پیک پر کام تقریباً رک گیا ہے اور سیکیورٹی بڑھانے کی وجہ سے چینی سرمایہ کاروں کو اضافی اخراجات کا سامنا ہے اور چھوٹی چینی کمپنیز کا پاکستان میں کام جاری رکھنا مشکل چکا ہے۔

دوسری جانب سیاسی عدم استحکام اور ایک سیاسی جماعت کی جانب سے مسلسل اسلام آباد کی جانب مارچ اور دھرنے نے معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ کے مطابق حکومت کو دھرنوں کی وجہ سے یومیہ 190 ارب روپے کا ریونیو نقصان ہورہا ہے۔

فروری میں انتخابات میں حکومت کے قیام میں آنے کے بعد آئی ایم ایف پروگرام پر کامیابی سے عمل درآمد نے معاشی استحکام کو میکرو سطح پر اجاگر کیا ہے لیکن ابھی اس کے اثرات عام آدمی کو محسوس نہیں ہوئے ہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ سال 2025ء ملکی معیشت کے لیے بہتر سال ثابت ہوگا۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔