وائٹ ہاؤس کے پاکستانی بیلسٹک میزائل پروگرام کے متعلق دعوے کے بعد پینٹاگون کا محتاط رویہ
امریکا نے وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے اس دعوے کے بعد کہ ملک ’امریکا میں اہداف کو نشانہ بنانے‘ کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے، پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے محتاط لہجہ اختیار کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پریس بریفنگ میں پینٹاگون کے پریس سیکریٹری میجر جنرل پیٹ رائیڈر سے جب پاکستان کی سرکاری میزائل ڈیولپمنٹ ایجنسی اور اس کے تین نجی وینڈرز پر امریکی پابندیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے براہ راست تنقید سے گریز کیا۔
پیٹ رائیڈر نے پاکستان کی فوج کے ساتھ پینٹاگون کے دیرینہ تعلقات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم خطے میں ایک پارٹنر کے طور پر پاکستان کی قدر کرتے ہیں اور ماضی میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔‘
انہوں نے پاکستان کی میزائل ڈیولپمنٹ یا پابندیوں پر مزید تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، اور اس طرح کے سوالات دیگر امریکی ایجنسیوں سے کرنے کا مشورہ دیا۔
پینٹاگون کی طرف سے یہ معتدل ردعمل قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر کے بیانات کے بالکل برعکس ہے، جنہوں نے جمعرات کو پاکستان پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کا الزام لگایا تھا جو امریکا کے لیے ’ابھرتا ہوا خطرہ‘ بن سکتا ہے۔
کارنیگی انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں خطاب کرتے ہوئے جان فائنر نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں ’حقیقی خدشات‘ کا اظہار کیا اور کہا تھا کہ اپنی ٹیکنالوجی کو ترقی دے کر اسلام آباد خود کو جنوبی ایشیا سے بہت آگے اہداف کو نشانہ بنانے کے قابل بنا سکتا ہے۔
جان فائنر نے کہا تھا کہ ’پاکستان کے اقدامات کو ابھرتے ہوئے خطرے کے علاوہ کسی اور چیز کے طور پر دیکھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔‘
امریکی عہدیدار کی طرف سے یہ تلخ لہجہ محکمہ خارجہ کی جانب سے چار پاکستانی اداروں پر ملک کے میزائل ڈیولپمنٹ پروگرام میں کردار ادا کرنے کا الزام عائد کرنے کے بعد اپنایا گیا تھا۔
فوجی تعلقات
پینٹاگون کا محتاط رویہ پاکستانی فوج کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے کے اس کے ارادے کو نمایاں کرتا ہے، جو کہ ماضی میں امریکی زیر قیادت آپریشنز میں ایک اہم علاقائی شراکت دار رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ موقف اسلام آباد کو خود سے الگ کرنے سے بچنے کی دانستہ کوشش کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے کیونکہ پاکستان کی سرحدیں دونوں خطوں سے ملتی ہیں۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پینٹاگون کا خاموش ردعمل دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ سیاسی تعلقات کے دوران بھی پاکستان کے ساتھ ملٹری ٹو ملٹری تعلقات کو برقرار رکھنے کی اس کی تاریخ سے مطابقت رکھتا ہے۔
اس کے برعکس، وائٹ ہاؤس کی مزید محاذ آرائی والی بیان بازی بائیڈن انتظامیہ کے اندر اسلام آباد کی اسٹریٹجک سمت پر بڑھتی ہوئی مایوسی کی عکاسی کرتی ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے میزائل پروگرام کے حوالے سے امریکی رویہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید کشیدہ کر سکتا ہے۔
چونکہ واشنگٹن، جنوبی ایشیا میں اپنے تزویراتی مفادات کو متوازن کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، امریکی حکومت کے مختلف عہدیداروں کے متضاد لہجے پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کی پیچیدگی کو واضح کرتے ہیں۔