دنیا

سعودی عرب میں معمولی ’تنقید‘ بھی جرم بن سکتا ہے، سماجی کارکن کا یو این فورم سے خطاب

اقوام متحدہ کا سائبر کرائمز کے خلاف معاہدہ ’عالمی نگرانی‘ سے متعلق ہوسکتا ہے، جو جبر کے لیے استعمال کیا جائے گا، لینا الھذلول کا ریاض میں ہونے والے انٹرنیٹ گورننس فورم میں اظہار خیال

انسانی حقوق کی سعودی کارکن نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض اقوام متحدہ کے ایک فورم میں آن لائن شرکت کرتے ہوئے سعودی عرب میں اختلاف رائے کو ’خاموش‘ کرنے کی مذمت کی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق سعودی عرب کے شہر ریاض میں انٹرنیٹ گورننس فورم میں لینا الھذلول کی موجودگی اس بات کی نادر مثال تھی کہ حکمران شاہی خاندان کی کھلم کھلا ناقد نے سعودی سرزمین پر ایک اجتماع سے خطاب کیا۔

ہیومن رائٹس واچ کے محقق جوئی شیا نے پینل اور لینا الھذلول کی تقریر کو ’تاریخی‘ قرار دیا۔

پینل کے منتظمین نے اجلاس کا آغاز سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں حکومت کے ناقدین کے لیے ایک لمحے کی خاموشی کے ساتھ کیا۔

پینل نگران کے کے ساتھ ایک خالی کرسی رکھی گئی تھی، جس پر لینا الھذلول کے نام کا ایک نام ٹیگ لگا ہوا تھا۔

لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ’اے ایل کیو ایس ٹی‘ کی کمیونیکیشن کی سربراہ لینا الھذلول نے کہا کہ آج کے لیے ایک خالی کرسی میری آواز کی نمائندگی کرے گی، جو ہم میں سے بہت سے لوگوں کی خاموشی کی واضح علامت ہے۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں ’کوئی بھی آن لائن محفوظ نہیں ہے، یہاں تک کہ جس چیز کو کوئی معمولی تنقید سمجھتا ہے وہ بھی جرم بن سکتا ہے‘۔

ان کی بہن لجین الھذلول ایک سرگرم کارکن ہیں، جنہوں نے خواتین کو گاڑی چلانے کے قابل بنانے اور سعودی عرب کے بدنام زمانہ سرپرستی کے نظام کے خاتمے کے لیے مہم چلائی، جس کے تحت خواتین کو بہت سے فیصلوں کے لیے مرد رشتہ داروں سے اجازت لینا پڑتی ہے۔

حکام نے لجین الھذلول کو مارچ 2018 میں متحدہ عرب امارات میں گرفتار کیا تھا اور سعودی عرب واپس بھیج دیا تھا، جہاں انہوں نے 2 سال سے زائد عرصہ جیل میں گزارا۔

لجین الھذلول کو فروری 2021 میں پروبیشن پر رہا کیا گیا تھا لیکن ان پر 5 سال کے لیے مملکت چھوڑنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

لینا الھذلول نے بدھ کے روز اپنے تبصروں میں سفری پابندی کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ وہ دور سے کیوں نظر آتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے آپ کے ساتھ براہ راست شامل ہونے کی امید تھی، لیکن حفاظتی خدشات اور 2018 سے میرے خاندان پر عائد غیر قانونی سفری پابندیوں کی وجہ سے، یہ فی الحال ناممکن ہے۔

سعودی عرب سماجی اصلاحات کے ذریعے اپنے ’ممنوع تشخص‘ کو نرم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا اور سینما گھروں کو دوبارہ متعارف کرانا شامل ہے۔

تاہم ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ سعودی عرب میں ’درجنوں افراد پرامن آن لائن تقریر کی پاداش میں قید ہیں، جن میں سے متعدد پر 2017 میں منظور کیے گئے انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس تقریب میں شرکت کے لیے اپنا پہلا وفد سعودی عرب بھیجا۔

’سائبر کرائم معاہدہ‘

بدھ کے روز کے پینل نے سائبر کرائمز کے خلاف اقوام متحدہ کے معاہدے پر توجہ مرکوز کی، جو ادارے کا پہلا ایسا متن ہے جسے رکن ممالک نے منظور کیا تھا، اس معاہدے پر انسانی حقوق کے کارکنوں نے نگرانی کے ممکنہ خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے شدید تحظات کا اظہار کیا تھا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کا ایک غیر معمولی اتحاد، اس معاہدے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ایک عالمی ’نگرانی‘ کا معاہدہ ہو سکتا ہے اور اسے جبر کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

لینا الھذلول نے اپنی تقریر میں ان دلائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ایک ’محتاط کہانی‘ ہے کہ کس طرح یہ معاہدہ اختلاف رائے کو دبانے کو ہوا دے سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سال میں، ہماری نگرانی اور تحقیق نے آن لائن اور آف لائن دونوں طرح سے سعودی عرب کے نگرانی کے نظام کی پریشان کن حد کا انکشاف کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں سول سوسائٹی اب آزادانہ طور پر بات نہیں کر سکتی اور جو لوگ حکام کے خیال میں اختلاف رائے کا اظہار کرنے کی ہمت کرتے ہیں، انہیں اکثر قید کرکے یا اس سے بھی بدتر طریقے سے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔

سعودی حکام کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے جن مقدمات کی مذمت کی گئی ہے، ان کا تعلق دہشت گردی سے متعلق جرائم اور امن عامہ کو درہم برہم کرنے کی کوششوں سے ہے۔