ملک کے بڑے شہر ’اربن فلڈنگ‘ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
’زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے،‘ یہ مشہورِ زمانہ جملہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ایک تقریر کے دوران اس وقت ادا کیا کہ جب وہ 2020ء کے دوران کراچی شہر میں بارش کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر اظہار خیال کررہے تھے۔
درحقیقت بلاول بھٹو کے یہ الفاظ مزاحیہ نہیں تھے لیکن ان کے اندازِ بیان کو عوام، بالخصوص سوشل میڈیا پر مذاق کے طور پر لیا گیا۔ ان کا یہ جملہ بالکل درست تھا کیونکہ جب قدرتی طور پر بارش کا دورانیہ کم اور اس کی شدت زیادہ ہوگی تو شہروں میں نکاسی آب کا نظام فوری طور پر ناکام ہوجائے گا۔ ایسی صورت حال میں شہروں کی سڑکوں، چوراہوں، گلیوں اور شاہراہوں میں بہتا یا ٹھہرا ہوا پانی سیلاب کا منظر پیش کرتا ہے جسے تکنیکی زبان میں ’اربن فلڈنگ‘ یا شہری سیلاب کہتے ہیں۔
لیکن شہری سیلاب کی بنیادی وجوہات کیا ہوتی ہیں اور اس میں قدرت اور انسانی مداخلت کس حد تک اثر انداز ہوتی ہے؟
سیلاب یا شہری سیلاب کے درمیان فرق
عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ سیلاب اس وقت آتا ہے کہ جب پانی کا بڑا ریلا کسی آبی گزر گاہ میں اس کی سقط سے زائد مقدار میں گزرے۔ اس طرح پانی گزرگاہ کے کناروں سے باہر نکل جاتا ہے تو وہ بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
ماضی میں پاکستان کو چند بڑے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا جوکہ دریاؤں یا ندی نالوں میں زائد مقدار پانی کی وجہ سے آئے۔ یہ پانی غیرمتوقع زیادہ بارش کی وجہ سے جمع ہوا یا پہاڑوں پر جمی برف کے جلد پگھلنے کے باعث جمع ہوا۔ ان دونوں صورتوں میں سیلاب آسکتا ہے۔
ہمارے ملک کے دریاؤں میں زیادہ تر پانی بھارت کے زیرِقبضہ کشمیر کے پہاڑی علاقوں سے آتا ہے تو جب بھارت اپنی ضرورت کا پانی ڈیمز میں محفوظ کرنے کے بعد پاکستانی دریاؤں میں پانی چھوڑتا ہے تو سیلاب آجاتا ہے جو شہروں اور میدانی علاقوں سمیت کھیتوں میں تباہی مچا دیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر پڑوسی ملک سے بڑا ریلا آنے کا واقعہ نہ ہو اور مون سون سیزن کے دوران اچانک کم دورانیہ میں بھاری برسات ہوجائے تو پھر شہروں میں بھی سیلاب کی صورت حال دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
سابق ایم ڈی واسا لاہور، زاہد عزیز حالیہ دنوں پانی سے متعلقہ مختلف سرکاری منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ لاہور جیسے شہر میں نکاسی آب کا نظام فی گھنٹہ 10 سے 15 ملی میٹر بارش کو آسانی سے کنٹرول کرسکتا ہے لیکن اگر 10 سے 15 گھنٹوں میں بارش 100 ملی میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوگئی تو پانی کی فوری نکاسی نہیں ہو پائے گی جس سے اربن فلڈنگ ہوسکتی ہے۔
کیا اربن فلڈنگ پہلے بھی عام تھی؟
اگر تاریخی پس منظر کی بات کروں تو لاہور شہر دریائے راوی کے کنارے آباد تھا اور مغلیہ دور میں جب لاہور شہر والڈ سٹی کے اندر موجود تھا تو یہ دریا سے بلندی پر آباد تھا۔ جب بارش ہوتی تھی تو پانی باآسانی دریا کی جانب بہہ جاتا تھا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہر میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ایسے علاقوں میں آبادکاریاں شروع ہوئیں جہاں نکاسی آب کا جامع نظام موجود نہیں تھا۔
انگریز دور میں بھی شہر میں جو پلاننگ ہوئی وہ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئیں کہ بارش کا پانی عمارتوں کو متاثر نہ کرے۔ مثال کے طور پر میو ہسپتال، لاہور ہائی کورٹ، گورنمنٹ کالجز اور جامعات کو بھی تھوڑی اونچائی پر تعمیر کیا گیا تھا جس کے پیچھے یہی حکمت کار فرما تھی کہ اگر زیادہ بارش ہوجائے تو پانی وہاں جمع نہ ہوسکے۔
بعدازاں مضافاتی علاقے بنائے گئے تو وہاں پر جوہڑ بھی بنائے جاتے تھے تاکہ زیادہ بارش ہونے کی صورت میں پانی جوہڑ جمع ہوجائے اور شہریوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جون 1977ء کو غیرمعمولی بارشیں ہوئیں جس کی وجہ سے سندھ کے دیگر شہروں سمیت کراچی میں بھی 207 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جس کے سبب بپھرا پانی ملیر اور لیاری ندی کے ساتھ ساتھ شہر بھر کے نالوں سے ملحقہ آبادیوں میں داخل ہوگیا۔ ان بارشوں اور سیلاب سے 350 افراد کی زندگیوں کا چراغ گُل ہوا۔
اربن فلڈنگ میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان (لاہور) کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز آبی ماہر، سہیل علی نقوی سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’ایک مقررہ وقت میں اگر بارش خاص مقدار سے زیادہ ہوجائے تو یہ عمل قدرتی طور پر شہری سیلاب کا باعث بن سکتا ہے۔ دوسری وجہ انسانی عمل دخل بھی اس کا سبب بن سکتا ہے جیسے بے ہنگم تعمیرات، سبز علاقوں یعنی پارکس کا کم ہونا اور اس کے علاوہ نکاسی آب کے نظام کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بھی مون سون کے سیزن میں سیلاب کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’شہری منصوبہ بندی کرنے والے اداروں نے شاہراہیں تو بڑی کردی ہیں اور قالین نما سڑکوں پر سفر کرنا بھی آسان ہوگیا ہے لیکن یہی ترقیاتی کام ہمارے لیے وبال جان بھی بن چکے ہیں۔ جب شاہراہوں کے گرد گرین بیلٹس کم یا بالکل نہیں ہوں گے تو جذب ہونے کے بجائے جمع ہی ہوگا‘۔
کراچی کے حوالے سے سہیل نقوی بتاتے ہیں کہ ’پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں بھی بڑھتی ہوئی آبادی اور بغیر منصوبہ بندی سے کی جانے والی تعمیرات نے اس شہر کو بھی بےہنگم حالات سے دوچار کیا ہے جہاں ندی نالوں پر بھی تجاوزات اور عمارتوں کی تعمیرات نے نکاسی آب کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ کراچی میں شہر کا پانی سمندر میں ہی جاتا ہے لیکن آبی گزرگاہوں میں اتنی رکاوٹیں آچکی ہیں کہ جہاں معمولی بارش میں شہر سے پانی نکلنے کے لیے ایک گھنٹہ درکار ہوتا تھا، اب اسی عمل میں کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں‘۔
سہیل علی نقوی نے بتایا کہ ’موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمیں مستقبل میں مزید ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جہاں زیادہ دورانیے کے لیے بارشیں ہوسکتی ہیں جس کے لیے ہمیں ابھی سے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف نے ماضی میں بہت سے ایسے منصوبوں پر کام شروع کیے ہیں جس سے آپ شہری علاقوں میں کھڑے ہونے والے پانی کو ٹھکانے لگا سکتے ہیں جس سے شہری سیلاب سے کسی حد تک نمٹنے میں مدد ملے گی پانی ضائع بھی نہیں ہوگا اور ضرورت پڑنے پر مختلف مقاصد کے لیے استعمال بھی کیا جا سکے گا۔
کراچی کے حوالے سے شہری حکومت کے ایک نمائندے نے بتایا کہ شہر میں اربن فلڈنگ کی وجوہات میں سے ایک سب سے بڑی وجہ نالوں پر تجاوزات کی بھرمار ہے جس کے خاتمے کے لیے سندھ حکومت نے بھرپور کوششیں کی ہیں جن میں گجر نالہ، محمود آباد نالے میں ازسرِنو تعمیر اور دیواریں اونچی کرنا شامل ہیں جبکہ کئی چوکنگ پوائنٹس، مثلاً میٹرک بورڈ اور ناگن چورنگی پر گرین لائن منصوبے کی وجہ سے بند نالوں کو دوبارہ کھولنے جیسے اقدامات بھی لیے گئے ہیں۔ کراچی کے 38 بڑے اور 500 چھوٹے نالوں کی مسلسل صفائی بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں نکاسی آب کے نظام
بارش کے پانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کے پیشِ نظر دنیا میں اس وقت تین مختلف طریقہ کار اپنائے جا رہے ہیں جن میں پہلا طریقہ بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے الگ سے ڈرین تعمیر کرنا ہے۔ دوسرا طریقہ انفلٹریشن کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن یہ ایک انتہائی تکنیکی کام ہوتا ہے جس کے لیے خاص قسم کا ماحول اور زمین کے خدوخال درکار ہوتے ہیں اور یہ پہلے طریقے کے مقابلے میں زیادہ مہنگا بھی ہوتا ہے جبکہ تیسرے طریقے میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے تالاب تعمیر کیے جاتے ہیں جس سے پانی کو دوبارہ استعمال میں بھی لایا جا سکتا ہے اور زیرِ زمین پانی کی سطح کو بلند کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
جاپان کے مختلف شہروں میں بھی بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے زیرِزمین ایسی سرنگیں بنائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر پارکنگ ایریاز کے نیچے بھی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ٹینکس بنائے گئے ہیں۔ جبکہ چند کھیل کے میدانوں کے نیچے بھی اسی طرح پانی کو محفوظ کرنے کی سہولت موجود ہے۔
برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو کو بھی چند سال قبل بارشوں کے باعث اربن فلڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن پھر انہوں نے شاہراہوں کے ساتھ زیرِزمین پانی محفوظ کرنے کے لیے ٹینکس بنائے جس کے بعد انہیں اس مسئلے سے چھٹکارا مل گیا۔
امریکا کے شہر واشنگٹن ڈی سی میں بھی برساتی پانی کی بروقت نکاسی اور اسے محفوظ بنانے کے لیے کم از کم 2.7 ارب ڈالر کی 27 میل لمبی زیرِزمین سرنگ تعمیر کی گئی ہے تاکہ شہر کو سیلاب کے پانی سے بچایا جا سکے۔ فرانس کے ایک فٹبال اسٹیڈیم کے نیچے بھی پانی ذخیرہ کرنے کا ٹینک بنایا گیا ہے۔
پاکستان میں اربن فلڈنگ سے بچاؤ کے اقدامات
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ڈائریکٹر سہیل علی نقوی کہتے ہیں کہ ’پنجاب بالخصوص لاہور میں برساتی پانی کو محفوظ کرنے اور سیلابی صورت حال سے بچنے کے لیے اچھے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں زیرِزمین ذخائر تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ زیرِزمین پانی کی سطح کو بلند کرنے کے لیے آرٹیفیشل ری چارج منصوبہ بھی شروع کیا گیا ہے جس میں مختلف تعلیمی اداروں کے کھیلوں کے میدانوں میں بارش کے پانی کو خاص طریقہ کار کی مدد سے زمین میں بھیجا جاسکتا ہے جوکہ ایک سستا اور کارآمد طریقہ ہے‘۔
ایم ڈی پنجاب میونسپل ڈیولپمنٹ فنڈ کمپنی وسابق ایم ڈی واسا لاہور زاہد عزیز نے اس حوالے سے بتایا کہ ’2020ء میں حکومت نے لارنس روڈ پر 14 لاکھ گیلن پانی محفوظ کرنے کے لیے پہلا منصوبہ شروع کیا جس میں زیرِزمین پانی کا تالاب تعمیر کیا گیا تاکہ بارش کے پانی کی نکاسی میں آسانی ہو اور اسے اسٹور بھی کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ مال روڈ لاہور پر واقع الحمرا گراؤنڈ کے نیچے بھی 11 لاکھ 50 ہزار گیلن پانی محفوظ کرنے کے لیے اسٹوریج ٹینک بنایا گیا ہے۔
’اسی طرح شیرانوالہ گیٹ کے پاس بھی 15 لاکھ گیلن پانی کو محفوظ کرنے کے لیے منصوبہ مکمل ہوچکا ہے اور مستقبل میں لاہور شہر میں 15 لاکھ گیلن سے لے کر 40 لاکھ گیلن تک کے مزید 9 ٹینکس بنائے جائیں گے جس میں سب سے بڑا 40 لاکھ گیلن پانی محفوظ کرنے کے لیے قذافی اسٹیڈیم کے گرد ٹینک آئندہ دو سے تین ماہ میں مکمل ہوجائے گا جس کے بعد اب بارش کے بعد سیلابی صورت حال نظر نہیں آئے گی‘۔
زاہد عزیز نے مزید بتایا کہ ’حکومت پنجاب نے آئندہ چند برسوں میں اوکاڑہ، وزیر آباد، مریدکے، خانیوال، وہاڑی اور فیصل آباد میں بھی اسی طرز کے اسٹوریج ٹینکس بنانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ تاہم کراچی جیسے بڑے شہر کو بھی محفوظ کرنے کے لیے سندھ حکومت کو فوری طور پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ندی نالوں سے غیر قانونی تعمیراتی کو ختم کرنا ہوگا، کھیلوں کے میدانوں کے نیچے ٹینکس بنانے کے ساتھ ساتھ بڑی شاہراہوں کے ساتھ بھی ایسے منصوبے شروع کرنا ہوں گے تاکہ مستقبل میں شہر کے انفراسٹرکچر اور عوامی جان و مال کو بھی محفوظ بنایا جا سکے‘۔
کراچی کے متعلقہ محکمے کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ شدید بارشوں میں اربن فلڈنگ سے بچنے کے لیے معروف گجر نالے کی تعمیر نو کے منصوبے پر کام شروع ہوچکا ہے جس کا تقریباً 80 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ تعمیراتی کام میں نالے کی صفائی اور دیواریں 40 فٹ اونچی کی گئی ہیں، راہ میں آنے والی تمام تجاوزات کا خاتمہ بھی کیا گیا ہے۔
کراچی میں اب تک اربن فلڈنگ سے ہونے والے نقصانات کا کوئی تخمینہ موجود نہیں لیکن ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے عہدیدار نے بتایا کہ کراچی میں نکاسی آب کا نظام بہتر بنانے کے لیے کم از کم 10 ارب ڈالرز اور 10سال کا وقت درکار ہے۔
لکھاری ڈان نیوز سے وابستہ ہیں۔ سیاست، سماجی مسائل اور دیگر اہم امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔