دنیا

شام پر پابندیوں کا خاتمہ ’بے پناہ ضروریات‘ کو پورا کرنے کیلئے اہم ہے، سلامتی کونسل کو بریفنگ

شام کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی گیئر پیڈرسن اور اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے سربراہ ٹام فلیچر کی 15 رکنی کونسل کو دمشق سے بریفنگ

شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی گیئر پیڈرسن نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ شام میں جامع سیاسی منتقلی کے لیے ٹھوس تحریک اس بات کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی کہ ملک کو وہ معاشی مدد ملے جس کی اسے ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر بات چیت کے لیے واضح آمادگی پائی جاتی ہے، ضروریات بہت زیادہ ہیں اور صرف وسیع حمایت کے ساتھ ہی حل کی جاسکتی ہیں، جس میں پابندیوں کا بآسانی خاتمہ، عہدوں پر مناسب نامزدگیاں اور مکمل تعمیر نو شامل ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق گیئر پیڈرسن اور اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے سربراہ ٹام فلیچر نے منگل کو 15 رکنی کونسل کو دمشق سے بریفنگ دی، جہاں انہوں نے اسلام پسند ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی سربراہی میں باغی قوتوں کے ہاتھوں صدر بشار الاسد کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد ملک کے نئے رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔

جغرافیائی سیاست

امریکا، برطانیہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک نے 2011 میں جمہوریت کے حامی مظاہروں کے خلاف بشارالاسد کے کریک ڈاؤن کے بعد شام پر سخت پابندیاں عائد کی تھیں، تاہم شام میں نئی حقیقت اس وقت مزید پیچیدہ ہوگئی ہے جب اسلامی گروپ ایچ ٹی ایس پر القاعدہ سے وابستہ تنظیم کے طور پر پابندیاں عائد ہیں۔

ماضی میں ’النصرہ فرنٹ‘ کے نام سے جانی جانے والی ایچ ٹی ایس 2016 میں تعلقات کے خاتمے تک شام میں القاعدہ کی باضابطہ شاخ تھی، یکطرفہ اقدامات کے ساتھ ساتھ یہ گروپ ایک دہائی سے زائد عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی القاعدہ اور داعش کی پابندیوں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

ٹام فلیچر نے تمام ریاستوں سے اس بات کو یقینی بنانے کی اپیل کی کہ شام میں ’پابندیوں اور انسداد دہشت گردی اقدامات سے انسانی ہمدردی کے اقدامات متاثر نہیں ہونے چاہئیں‘۔

کئی سفارتکار تسلیم کرتے ہیں کہ پابندیوں کا خاتمہ کرکے شام کی نئی انتظامیہ کو اپنے وعدوں کی تکمیل کا پابند کیا جاسکتا ہے، سفارتکاروں اور اقوام متحدہ کے حکام کی خواہش ہے کہ ان مشکلات کے اعادے سے گریز کیا جائے جن کا افغانستان میں سامنا کرنا پڑا تھا۔

دو دہائیوں کی جنگ کے بعد اگست 2021 میں جب امریکی قیادت والی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے اقتدار سنبھالا تو بینک اقوام متحدہ اور امریکی پابندیوں کی جانچ کرنے سے محتاط تھے، جس کی وجہ سے اقوام متحدہ اور امدادی گروپوں کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے درکار نقد رقم فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ امریکا کو پابندیوں سے استثنیٰ جاری کرنا پڑا۔

جون تک 10 لاکھ مہاجرین کی ممکنہ واپسی

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی سربراہ برائے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ ریما جیمس امسیس نے اس سے قبل جنیوا میں نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ ’ہم نے پیش گوئی کی ہے کہ ہمیں امید ہے کہ اگلے سال جنوری اور جون کے درمیان 10 لاکھ شامیوں کی واپسی ہو سکے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ حالیہ پیش رفت بہت زیادہ امید لے کر آئی ہے، کرہ ارض پر نقل مکانی کا سب سے بڑے بحران بالآخر حل ہونے والا ہے’، لیکن انہوں نے زور دیا کہ ’ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ حکومت میں تبدیلی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہاں پہلے سے موجود انسانی بحران کا خاتمہ ہو گیا ہے‘۔

انہوں نے ’بے پناہ مشکلات‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لاکھوں شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے ممالک پر زور دیا کہ وہ انہیں جلد بازی میں واپس بھیجنے سے گریز کریں، انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی زبردستی شام واپس نہیں بھیجا جانا چاہیے اور شامیوں کے پناہ گزینی اختیار کرنے کے حق کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔