مدارس کی رجسٹریشن: آخر مولانا فضل الرحمٰن کی بےچینی کی وجہ کیا ہے؟
26ویں آئینی ترمیم کے بعد لگتا ہے کہ یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ عدلیہ کمزور ہوچکی ہے جسے کنٹرول کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مدارس کے لیے قانون سازی کی جانب توجہ مرکوز کردی گئی ہے جس کے لیے مذاکرات کو مولانا فضل الرحمٰن نے 26ویں ترمیم منظور کرنے کے لیے حکومت کی حمایت کرنے سے مشروط کیا تھا۔
تاہم صدر کی جانب سے دستخط سے انکار نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے جو کچھ عرصے سے مرکزی دھارے کے مباحثوں کا موضوع نہیں تھے۔
درحقیقت چند سالوں سے انتہاپسندی اور تعلیم کی فراہمی میں مدارس کے کردار سے متعلق زور نہیں دیا جارہا حالانکہ 9/11 سے پہلے بھی یہ ہمارے لیے اہم معاملہ تھا جس پر اکثر بحث ہوتی رہتی تھی۔ 1990ء کی دہائی میں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان میں فرقہ واریت اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کے حوالے سے مدارس کے کردار پر قابلِ ذکر توجہ دی گئی تھی۔
درحقیقت مدارس کو ’ریگولیٹ‘ کرنے میں حکومت کی دلچسپی کی ایک تاریخ ہے۔ 1961ء میں جنرل ایوب خان نے مدارس کو حکومتی نگرانی میں لانے اور وفاق کا حصہ بنانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسی طرح کی ایک اور کوشش کی اور 1978ء میں جنرل ضیاالحق نے وزارت مذہبی امور کو مدارس کی تعلیم میں اصلاحات اور انضمام کا منصوبہ بنانے کا حکم دیا۔
لیکن ان تمام کوششوں کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے جبکہ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے تک عالمی سطح پر مدارس کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جانے لگا تھا جبکہ حکومت پاکستان اپنی اسی پرانی پالیسی پر عمل پیرا تھی جوکہ مدارس کو وفاق کے ماتحت کرنے کے حوالے سے تھی۔
بہ ظاہر لگتا ہے کہ مسئلے کی درست تشخیص کیے بغیر یا اس کو سمجھنے کی ٹھوس کوششیں کیے بغیر مدارس سے متعلق پالیسیز بنائی جاتی ہیں یا بحث کی جاتی ہے۔ کیا مدارس نے انتہاپسند سوچ کو پروان چڑھایا ہے؟ کیا ان مدارس نے دہشتگرد تنظیموں کو مسلح جنگجوؤں فراہم کیے ہیں؟
اگر پالیسی سازوں کے پاس ان سوالات کے جوابات ہیں بھی تو کبھی یہ جوابات عوام کو نہیں دیے گئے۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ ان کے پاس یہی واحد حل موجود ہے کہ مدارس کو وفاق کے ماتحت کیا جائے جس سلسلے میں مدارس کی رجسٹریشن پہلا قدم ہوتا ہے۔
ایک دہائی قبل سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد نیشنل ایکشن پلان میں بھی یہی تجویز پیش کی گئی تھی۔ بلآخر 2019ء میں مدارس نے وزارت تعلیم کے ساتھ معاہدہ طے کیا جس میں رجسٹریشن عمل کا آغاز کیا گیا۔ مدارس خود اپنی رجسٹریشن کروا رہے تھے لیکن حکومت نے مدارس کو سرپرستی، فنڈز اور دیگر مراعات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس سے قبل مدارس کا اندراج ضلعی سطح پر سوسائٹیز ایکٹ کے تحت کیا گیا تھا جبکہ مقامی سطح پر ہونے والی رجسٹریشن پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔
2019ء کے معاہدے کا مقصد ایک ایسا وفاقی نظام تشکیل دینا تھا جس کے تحت ملک میں موجود مدارس کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنا ممکن ہو جبکہ اس سے ان کے نصاب، طلبہ کی تعداد اور فنڈنگ وغیرہ سے متعلق جانچ پڑتال بھی کی جاسکے۔ اس کے علاوہ اس معاہدے نے نئے بورڈز کے قیام کی راہ بھی ہموار کی۔ اس سے قبل 5 بورڈز کی اجارہ داری تھی جس میں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن کو غلبہ حاصل تھا۔
تاہم یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وفاق کے ماتحت کرنے سے نگرانی کے عمل کو کیسے مدد ملے گی کیونکہ معاشرے کے ایسے بہت سے پہلوؤں ہیں جہاں یہ طریقہ مؤثر ثابت نہیں ہوا۔ سرکاری شعبے میں تعلیم کا ناقص معیار اس کی مثال ہے۔ فی الحال اس سوال کو ہم ایک جانب کردیتے ہیں۔
2019ء کے رجسٹریشن سسٹم پر واپس آتے ہیں کیونکہ اس سے ہمیں کیا حاصل ہوا، یہ ایسا سوال ہےجو جواب طلب ہے۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 18 ہزار مدارس کی رجسٹریشن کی گئی جبکہ بہت سے مدارس نے اپنی سہولیات اور ٹیچرز کے معیار کو اپ گریڈ کرنے کے لیے حکومت کی معاونت لینے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ لیکن وہ لوگ جو اس سیکٹر پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں، وہ حکومت کی معاونت سے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
معاہدے نے اس شعبے میں نئے امیدواروں کے لیے راہ ہموار کی ہے اور صرف 5 بورڈز کی اجارہ داری کا خاتمہ کیا ہے۔ بہت سے ناقدین کے مطابق شاید جے یو آئی-ف کی بےچینی کی یہی وجہ ہے۔
تاہم اس سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دورِ حکومت میں طے کیا گیا تھا، وہ بھی اس وقت کہ جب سیاسی حکومت اور فوج ’ایک صفحے‘ پر تھے۔ ایک جانب جہاں حکومت تعلیم کے شعبے میں یک نصابی اصلاحات لانے کے لیے کارفرما تھی وہیں اسٹیبلشمنٹ نے ایک ’اضافی‘ کوشش کی تھی جس سے وہ مذہبی عناصر کو مذاکرات کی میز پر لے آئے تھے۔ اس کی جانچ کی جانی چاہیے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ماتحت ادارہ کامیاب ہوگیا تھا جبکہ دیگر سربراہان اس میں ناکام رہے۔
یہ بہت پہلے ہی واضح ہوچکا تھا کہ جے یو آئی-ف خوش نہیں۔ مگر پارٹی اس معاملے پر کوئی اقدام لینے سے قاصر تھی حالانکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت کے دوران وہ اقتدار میں تھے اور ان کے پاس زیادہ اختیارات تھے۔ جے یو آئی-ف کا مؤقف ہے کہ ماضی میں پارلیمنٹ میں اسی طرح کا بل پیش کیا جاچکا ہے لیکن وہ منظور نہیں ہوا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ جے یو آئی-ف اس وقت اقتدار کا حصہ بنے رہنے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے تھی اور وہ کوئی ایسا قدم اٹھانا نہیں چاہتی تھی جس سے وہ اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کا سبب بنے۔
اس تناظر سے دیکھیں تو اس اقدام کے لیے یہ موزوں وقت لگتا ہے کہ جب عجلت میں 26ویں آئینی ترمیم منظور کروانے کے بعد جے یو آئی-ف کو بالکل حکومتی معاملات سے الگ کردیا گیا ہے۔ تاہم چند گھنٹوں میں تیزی سے 26ویں ترمیم منظور کروانے میں حکومت کا ساتھ دینے کے ثمرات نظر نہیں آرہے کیونکہ صدر کی جانب سے رکاوٹ حائل ہے۔
صدر کا اس قانون پر دستخط سے انکار کا فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کس نے اس اصلاحات کو مسترد کیا ہے اور اس فیصلے کو کس کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن صدر زیادہ دیر تک انکار کرسکتے ہیں لہٰذا اس معاملے کے حل کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا۔ پہلے ہی ’سمجھوتے‘ کی چہ مگوئیاں ہورہی ہیں، اگر سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو وفاق کے ماتحت لانے کے لیے رجسٹریشن عمل کی بھی اجازت ہوگی اور مدارس کو یہ اجازت بھی ہوگی کہ وہ چاہیں تو سوسائٹیز ایکٹ کے تحت بھی اپنا اندراج کروا سکتے ہیں۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اصلاحات کتنی مؤثر ہوں گی؟ اگر مدارس کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ اپنی رجسٹریشن کا طریقہ خود چنیں تو پھر حکومت کا ان کی نگرانی کرنے کا مقصد کس حد تک پورا ہوگا؟
اس سے بھی اہم یہ ہے کہ اس طرح کی کوششوں سے ایسے معاشرے میں عدم برداشت اور انتہاپسندی کو ختم نہیں کیا جاسکتا جہاں دائیں بازو کے نظریات اور مبینہ گستاخی کے کیسز میں ہجوم کی جانب سے قتل جیسے واقعات معمول بن چکے ہوں۔
حالیہ برسوں میں اس حوالے سے پنجاب اسمبلی نے قوانین اور قراردادیں منظور کی ہیں جہاں تمام پس منظر سے آنے والے ممبران صوبائی اسمبلی نے علما کو نصاب میں شامل مذہبی مواد کا جائزہ لینے کی اجازت دینے جیسے اقدامات کی منظوری دی کہ جس سے ہمارا معاشرہ ترقی نہیں کرے گا بلکہ مزید پیچھے جائے گا۔ تو بات اب محض مسئلے کی تشخیص سے بہت بڑھ چکی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔