’اردوان جانتے ہیں کہ امریکا اور روس کو ایک دوسرے کے خلاف کیسے استعمال کرنا ہے‘
رجب طیب اردوان حالیہ دنوں کافی سرگرم ہیں۔ شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے سے اسرائیل کے ساتھ ساتھ ترکیہ کی بھی جیت ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود ترکیہ کے صدر وقفہ نہیں لے رہے بلکہ زیادہ متحرک ہوچکے ہیں۔
باغیوں کے دمشق فتح کرنے کے فوراً بعد رجب طیب اردوان نے ایتھوپیا اور صومالیہ کے درمیان معاہدہ طے کرنے میں ثالث کا کردار ادا کیا جس کے تحت دونوں ممالک کے مابین زمین کے تنازع کا حل نکالا گیا۔ ایتھوپیا صومالی لینڈ میں پورٹ بنانے کا ارادہ رکھتا تھا جبکہ صومالیہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ اس کی زمین ہے۔
ایتھوپیا اور صومالیہ کے درمیان یہ تنازع انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس کے علاقائی سطح پر وسیع تر اثرات مرتب ہوسکتے تھے۔ یہ فوری طور پر حل طلب اس لیے تھا کیونکہ ایتھوپیا کی جانب سے دریائے نیل پر ڈیم بنانے کے جواب میں مصر صومالیہ کی حمایت میں میدان میں آچکا تھا جبکہ مصر کے لیے دریائے نیل پانی کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ ہے اور ڈیم بنانے کے اقدام سے مصر کو خطرہ محسوس ہوا۔
اس کے بعد رجب طیب اردوان نے سوڈان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ’تنازعہ حل‘ کرنے کی پیش کش کی۔ متحدہ عرب امارات پر الزام ہے کہ وہ سوڈان میں حمدان دکلو کی سربراہی میں باغیوں کی ریپڈ سپورٹ فورس کی حمایت کررہا ہے اور انہیں ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ یہ گروپ سوڈان کے موجودہ رہنما عبدالفتاح البرہان کے خلاف خانہ جنگی کررہا ہے۔
یہ عکاسی کرتا ہے کہ رجب طیب اردوان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات بھی مثالی نہیں جبکہ ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کی دشمنی مغربی ایشیا کا ایسا باب ہے جس کے حوالے سے زیادہ بات نہیں کی جاتی۔ ثالثی کی پیش کش کرکے اردوان نے واضح عندیہ دیا ہے کہ وہ ترک اثر و رسوخ کو بڑھانے کے اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترکیہ اب لیبیا پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا جہاں جنرل خلیفہ بالقاسم عمر حفتر کی لیبیا نیشنل آرمی کے خلاف ترکیہ طرابلس کی حکومت کی حمایت کر رہا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک جنرل عمر حفتر کی حمایت کررہے ہیں۔
جہاں تک شام کا معاملہ ہے تو ترکیہ اپنا عمل دخل چھپانے کی کوشش بھی نہیں کررہا۔ الاسد حکومت کے خاتمے کے محض 5 روز بعد ترک انٹیلی جنس چیف ابراہیم کالن نے شام کا دورہ کیا۔ وہ بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے بعد دمشق کا دورہ کرنے والے پہلے غیرملکی سینئر عہدیدار بنے۔ انہوں نے حیات التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے سربراہ ابو محمد الاجولانی سے بھی ملاقات کی جوکہ اب شام کے ممکنہ حکمران ہیں۔
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ترکیہ ایچ ٹی ایس کی حمایت کرتا ہے۔ ترکیہ نے شامی عرب آرمی کے خلاف باغیوں کی کارروائیوں میں اہم کردار ادا کیا۔ باغیوں نے بشار الاسد کے اتحادیوں کی مصروفیت کا فائدہ اٹھایا اور مکمل منصوبہ بندی سے پیش قدمی کی کیونکہ ایران اور حزب اللہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں جبکہ یہ ایسا وقت تھا کہ جب روس بھی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر شامی حکومت کو فوری طور پر باغیوں کے خلاف فوجی معاونت فراہم کرنے سے قاصر تھا۔ جس رفتار سے الاسد حکومت کا تخت الٹا، اس میں کسی غیرملکی قوت کو مداخلت کرنے کا موقع تک نہیں ملا۔
جغرافیائی سیاست میں شاذ و ناذر ہی کسی کی جیت یا ہار ہوتی ہے۔ اب جب روس اور ایران یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ شام کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے آمادہ ہیں تو یہ مذاکرات بھی ترکیہ کے ذریعے ہوسکتے ہیں جس میں وہ کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ یوں رجب طیب اردوان کے سفارتی اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہوگا۔
اگرچہ ترکیہ کے لیے شام میں ایچ ٹی ایس پراکسی سے زیادہ ایک اتحادی بن چکا ہے، ایسے میں شامی نیشنل آرمی (ایس این اے) مکمل طور پر ترکیہ کے زیرِ کنٹرول ہے۔ اس کے جنگجوؤں کو ترکیہ کی جانب سے اسلحے کی فراہمی ہورہی ہے جبکہ شامی سرزمین پر ترکیہ کا ’بفر زون‘ بھی موجود ہے۔ شامی نیشنل آرمی کے جنگجوؤں اس وقت ترکیہ کے لیے کرد شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) سے مقابلہ کررہے ہیں جبکہ ایس ڈی ایف کو امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے اور تیل کی پیداوار کرنے والے زیادہ تر شامی علاقوں پر بھی ایس ڈی ایف کا قبضہ ہے۔
جیسے ہی بشار الاسد حکومت کا خاتمہ ہوا تو رپورٹس کے مطابق ترک ڈرونز اور دیگر ہتھیاروں کی مدد سے ایس این اے نے کرد جمہوری فورسز کے زیرِکنٹرول علاقوں میں پیش قدمی کرتے ہوئے تل رفعت اور منبج کا کنٹرول سنبھال لیا۔ امریکی اسٹیٹ سیکریٹری انٹونی بلنکن نے بوکھلاہٹ میں فوری طور پر اپنے کرد اتحادیوں کی حفاظت کے لیے ترکیہ کے ساتھ مذاکرات کیے۔ تاہم ترکیہ کے وزیر خارجہ یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ایس ڈی ایف کو ختم کرنا ترکیہ کا اہم ’اسٹریٹجک ہدف‘ ہے۔
اگرچہ بہ ظاہر یہ صورت حال سفارتی مسئلہ معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت یہ رجب طیب اردوان کی حکمت عملی ہے جو بہت اچھی طرح سے واقف ہیں کہ دو فریقوں کو ایک دوسرے کے خلاف کیسے استعمال کرنا ہے۔ ترکیہ نے یوکرین کو جدید ملٹری ہتھیاروں کی فراہمی کی لیکن ساتھ ہی اس نے روس سے ایس-400 فضائی دفاعی سسٹم بھی خریدا۔ اسی طرح جب مغرب ترکیہ کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات پر خدشات کا اظہار کررہا تھا تب ترکیہ نے ان خدشات کو دیگر شعبہ جات میں فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔
یہ حقیقت کہ شام میں امریکا کو ترکیہ کی حمایت کی ضرورت پیش آئی گی، رجب طیب اردوان کی بڑی کامیابی ہے۔ وہ لچک دکھا کر اپنے مفادات پورے کرسکتے ہیں جبکہ وہ یہ بھی یقینی بنائیں گے کہ کلیدی فیصلے کرنے کا اختیار ان کے پاس رہے۔
ترکیہ کو دیگر ممکنہ فوائد بھی حاصل ہوسکتے ہیں بالخصوص جب آپ اس معاملے کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں کہ شام کو دوبارہ سے تعمیر، بحالی اور ہتھیاروں کی ضرورت ہے جبکہ ترکیہ اس کام کے لیے بہترین امیدوار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں ترک اسٹیل اور سیمنٹ مینوفیکچررز کے شیئرز کی قیمتوں میں 10 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تیزی سے ترقی کرنے والی ترکیہ کی دفاعی انڈسٹری شام کی نئی فوج کو اس کی ضرورت کے مطابق ہتھیار فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔
اس کے علاوہ بھی ایک پہلو ہے۔ چونکہ اب شام ترکیہ کا کلائنٹ یا اتحادی بن چکا ہے تو توانائی کو مرکز بننے کا ترکیہ کا خواب بھی حقیقت کا روپ دھارنے کے قریب ہے۔ یہ پہلے ہی ٹرانس اناتولین پائپ لائن کی صورت میں متحرک ہے جو آذربائیجان کی گیس کی یورپ تک ترسیل کرتی ہے۔
دمشق میں ترکیہ کی حامی حکومت بننے سے قطر-ترکیہ-یورپ گیس پائپ لائن کی تعمیر بھی ممکن ہوسکتی ہے۔ یعنی فی الوقت علاقائی سطح پر ترکیہ کی پوزیشن انتہائی مستحکم ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
ضرار کھوڑو ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ڈان نیوز ٹی وی پر پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے میزبان بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ZarrarKhuhro@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔