پاکستان

’جوڈیشل کمیشن کو ججز سنیارٹی کو نظر انداز کرنے کی وجوہات بتانا ہوں گی‘

پہلے جوڈیشل کمیشن میں شامل ججز کو اعلیٰ عدلیہ کیلئے ججز کا انتخاب کرنے کا اختیار تھا مگر اب کمیشن میں شامل سیاسی رہنما کسی کو بھی اعلیٰ عدلیہ کے جج کیلئے نامزد کرسکتا ہے۔

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کی کمیٹی نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر کے لیے طریقہ کار اور اہلیت کے معیار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد کے مسودے کو حتمی شکل دے دی جس کے مطابق اگر کمیشن عدلیہ کے سینئر ممبر کو نظر انداز کرتی ہے تو اس کی ٹھوس وجوہات بتانا ہوں گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ قواعد کا مسودہ 21 دسمبر کو حتمی منظوری کے لیے جے سی پی کے سامنے پیش کیا جائے گا، جوڈیشل کمیشن کا سیکریٹریٹ ایک دو دن میں مسودہ قواعد کو حتمی شکل دے گا اور توقع ہے کہ حتمی اجلاس سے قبل اسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیا جائے گا۔

اس عمل سے بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کو یہ موقع ملے گا کہ اگر اس مسودے پر ان کا کوئی اعترض ہے تو وہ اس پر سوال کر سکتے ہیں۔

ذرائع نے وضاحت کی کہ مجوزہ قواعد کے ذریعے خصوصی معیار یا پروفارما تیار کیا گیا تھا جس کے تحت امیدواروں (قانونی برادری کے ممبران یا ججز) کو اعلی عدلیہ میں ترقی دینے کے لیے کم از کم 10 فیصلوں کی فہرست پیش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی کرنا ضروری تھا کہ آیا وہ دلائل پر مبنی ہیں یا نہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد سے ججز کو اعلیٰ عدلیہ میں ترقی دینے کا سارا عمل تعطل کا شکار ہوگیا ہے کیونکہ آئینی پیکج میں جوڈیشل کمیشن کے ہر رکن یہاں تک کے سیاسی جماعت کے کارکن کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ کسی کو بھی اعلیٰ عدلیہ کے جج کے طور پر نامزد یا تجویز کرسکتے ہیں۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ اس سے پہلے جوڈیشل کمیشن میں شامل ججز کو یہ اختیار تھا کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے لیے ججز کا انتخاب کرتے تھے، تاہم اب ہر کوئی اپنے لیے لابنگ کرتا دکھائی دے رہا ہے تاکہ ان کا نام جے سی پی کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی فہرست میں شامل کیا جاسکے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ قواعد کا مسودہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہوتے ہی نامزد کردہ لوگوں کو ایک اور موقع مل جائے گا کہ وہ اپنا کیس اور مضبوط کرکے دوبارہ پیش کریں۔

مجوزہ قواعد میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ اگر جوڈیشل کمیشن، ہائی کورٹ کے کسی سینئر جج کی سپریم کورٹ میں ترقی یا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو ہائی کورٹ میں تقرر کے لیے نظرانداز کر دیتا ہے تو کمیشن کو عدلیہ کے سینئر رکن کو نظر انداز کرنے کی ٹھوس وجوہات بتانا ہوں گی۔

متعلقہ ہائی کورٹس کے ایڈیشنل جج بننے کے لیے نامزد شخص کی دیانتداری، پیشہ ورانہ مہارت، غیر جانبداری اور ساکھ پر بھی زور دیا گیا ہے جب کہ قواعد کمیشن کو کسی بھی نامزد شخص کو تفصیلی انٹرویو کے لیے بلانے کا اختیار دیں گے اگر انہیں نامزدگی کے بارے میں کوئی شک ہو۔

اس سے قبل 6 دسمبر کو ہونے والے اجلاس میں جے سی پی نے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کو تجویز دی تھی کہ وہ ذیلی کمیٹی کی تشکیل کے لیے اراکین کو نامزد کریں۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی قائم کی جو رولز کا مسودہ تیار کرے گی اور انہیں کمیشن سیکریٹریٹ کے ساتھ شیئر کرے گی۔ ذیلی کمیٹی کے ارکان میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، سینیٹرز بیرسٹر سید علی ظفر اور فاروق حامد نائیک اور سینئر وکیل اختر حسین شامل تھے۔

ذیلی کمیٹی کے اجلاس سے قبل سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے جسٹس مندوخیل کو خط لکھ کر آئینی عدالتوں میں ججز کے تقرر کے لیے ’واضح اور شفاف قواعد‘ کو حتمی شکل دینے پر زور دیا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے خبردار کیا کہ اس طرح کے فریم ورک کے بغیر تقرریاں غیر آئینی ہوں گی اور یہ عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ کر سکتی ہیں۔

جواب میں جسٹس جمال مندوخیل نے یقین دلایا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے بھیجی گئی زیادہ تر تجاویز کو ججز تقرری سے متعلق قواعد کے مسودے میں پہلے ہی شامل کیا جاچکا ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ عدلیہ میں قابل اور ایماندار افراد کو شامل کیے جانے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔