شرح سود میں کمی کے امکان پر پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی
شرح سود میں کمی کے امکان پر پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں کاروباری ہفتے کے آغاز پر زبردستی تیزی کا رجحان رہا، بینچ مارک 100 انڈیکس 2 ہزار 75 پوائنٹس اضافے سے ایک لاکھ 16 ہزار کی نئی حد بھی عبور کرگیا تاہم کاروبار کے اختتام پر انڈیکس 1867 پوائنٹس اضافے پر بند ہوا۔
پی ایس ایکس کی ویب سائٹ کے مطابق کاروباری ہفتے کے پہلے روز مارکیٹ زبردست تیزی کا رجحان برقرار ہے، کاروبار کے دوران دوپہر 12 بجکر 9 منٹ پر 100 انڈیکس 2 ہزار 93 پوائنٹس اضافے سے ایک لاکھ 16 ہزار 341 کی سطح پر پہنچ گیا۔
پیر کو کاروباری دن کے اختتام پر ہنڈرڈ انڈیکس 1867 پوائنٹس یا 1.63 فیصد اضافے سے ایک لاکھ 16 ہزار 169 کی سطح پر بند ہوا، یاد رہے کہ جمعہ کو کاروباری ہفتے کے اختتام پر مارکیٹ ایک لاکھ 14 ہزار 301 پوائنٹس پر بند ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی آج اگلے دو ماہ کے لیے پالیسی ریٹ کا اعلان کرے گی۔
قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ افراط زر میں کمی کے باعث شرح سود میں کمی کی کافی گنجائش ہونے کے باوجود اسٹیٹ بینک شرح سود میں کمی کے حوالے سے محتاط رویہ اختیار کرے گا۔
شرح سود میں کٹوتی کی توقعات کے حوالے سے مالیاتی ماہرین اور صنعت و تجارت کے شعبوں میں وسیع فرق پایا جاتا ہے۔ اگرچہ کاروباری ادارے معاشی ترقی کو تیز کرنے کے لیے 400 سے 500 بیسس پوائنٹس کی کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم معاشی تجزیہ کاروں نے 200 سے 300 بی پی ایس کی زیادہ قدامت پسندانہ کٹوتی کی پیش گوئی کی ہے۔
کنزیومر پرائس انڈیکس کی بنیاد پر افراط زر کی شرح نومبر میں تیزی سے گر کر 4.9 فیصد پر آگئی، جس سے حقیقی شرح سود انتہائی مثبت 10 فیصد پر رہ گئی کیونکہ موجودہ پالیسی ریٹ 15 فیصد ہے۔
اگرچہ اس سے شرح سود میں کٹوتی کی کافی گنجائش پیدا ہوتی ہے، لیکن تجارتی و صنعتی نمائندوں کے مطالبے کے برخلاف اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ تک کم کرنے کا امکان نہیں ہے۔
مرکزی بینک جون کے بعد سے چار وقفوں میں شرح سود کو 22 فیصد سے کم کر کے 15 فیصدپر لے آیا ہے لیکن وہ کنزیومر پرائس انڈیکس میں زبردست کمی کا تعاقب کرنے میں ناکام رہا ہے، جو نومبر میں 78 ماہ کی کم ترین سطح 4.9 فیصد پر پہنچ گیا تھا۔ حکومت اور مارکیٹ کے ماہرین نے سی پی آئی پر مبنی افراط زر کی شرح 6 سے 8 فیصد تک رہنے کی توقع ظاہر کی ہے۔
کچھ ماہرین کے مطابق بظاہر یہ اچھا ہے لیکن سی پی آئی میں تیزی سے کمی بھی کم معاشی سرگرمیوں کی نشاندہی کرتی ہے، خاص طور پر جب حکومت اور بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں نے مالی سال 2025 میں معاشی ترقی کا تخمینہ 2.5 سے 3 فیصد کے درمیان لگایا ہے۔
مالیاتی ماہرین نے یہ بھی متنبہ کیا ہے کہ پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ تک کم کرنے سے بینکاری نظام غیر مستحکم ہوگا اور افراط زر دوبارہ بڑھ سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں اور محققین نے اپنی رپورٹس میں اندازہ لگایا ہے کہ دسمبر میں افراط زر مزید کم ہو کر 3.5 سے 3.9 فیصد رہ جائے گا، اس طرح شرح سود میں مزید کمی کی گنجائش پیدا ہوگی، تاہم، وزیر خزانہ نے حال ہی میں اشارہ دیا ہے کہ یہ کمی 300 بیسس پوائنٹس سے زیادہ نہیں ہوسکتی ہے۔