الیکٹرک گاڑیوں کی برآمد کئی مشکلات کا حل ہے، پائیڈ
سرکاری تھنک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) نے الیکٹرکل وہیکلز (ای ویز) کی ملک میں منتقلی اور موافقت میں درپیش مشکلات پر روشنی ڈالتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس شعبے میں آنے والی عالمی انقلابی تبدیلی سے زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد سمیٹنے کے لیے برآمدی مواقع پر توجہ مرکوز کی جائے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک پالیسی تجویز میں پائیڈ نے حکومت اور آٹوموبائل انڈسٹری کو تجویز دی کہ وہ 2030 تک تمام الیکٹرک گاڑیوں کا 10 فیصد اور تیار آٹو پارٹس کا 5 فیصد برآمد کرنے کا ہدف رکھیں اور 2040 تک پاکستان میں تیار ہونے والی تمام الیکٹرک گاڑیوں اور آٹو پارٹس کا 50 فیصد برآمد کیا جائے۔
یہ پالیسی تجویز وزیر اعظم کی ایک مضبوط ای وی پالیسی کے لیے حالیہ ہدایات کے بعد سامنے آئی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کی جانب منتقلی اس بوجھ کو کم کر سکتی ہے، تیل کی درآمدات میں کمی اور کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو بہتر بنا سکتی ہے، ای ویز کو اپنانے سے ملک کو دہرا موقع مل سکتا ہے— کاربن کے اخراج میں کمی کے ذریعے ماحولیاتی تحفظ اور درآمدی لاگت کو کم کرکے معاشی لچک— اس تبدیلی کو اپنانے سے پاکستان کے موسمیاتی اہداف میں مدد ملے گی اور اس کے معاشی استحکام کو تقویت ملے گی۔
دریں اثنا، پائیڈ کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے حصول میں اہم رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، 2 اور 3 پہیوں والی گاڑیوں سے لے کر بڑی کمرشل گاڑیوں تک، الیکٹرک گاڑیوں کی طرف منتقلی کو ٹرانسپورٹ کے تمام زمروں میں پیچیدہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پائیڈ نے پالیسی فریم ورک پر زور دیا جو ان رکاوٹوں کو مؤثر اور جامع طریقے سے حل کرے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ای ویز کی طرف منتقلی میں متعدد مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے جن میں زیادہ پیشگی لاگت، گاڑیوں کی کم ملکیت، رینج انزائٹی (محدود توانائی کے باعث ہونے والی پریشانی)، چارجنگ کی محدود سہولت، کم پیداواری حجم اور محدود پیداواری صلاحیت اور عالمی ویلیو چین سے علیحدگی شامل ہیں۔
پائیڈ نے کہا کہ ملک میں ای ویز کو اسمبل یا تیار کرنے کی ٹیکنالوجی ابتدائی مرحلے میں ہے لہٰذا ای ویز کی پیداواری لاگت زیادہ ہے، اس کے علاوہ درآمدات پر انحصار، متعلقہ صنعتوں کی کمی اور اعلیٰ درآمدی ٹیرف کے باعث گاڑیوں کی پیداواری لاگت بہت زیادہ تھی۔
لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گاڑیوں کی کم ملکیت بھی ایک مسئلہ تھا، اگرچہ 61 فیصد پاکستانی گھرانوں کے پاس ذاتی سواری ہے لیکن صرف 6 فیصد کے پاس کاریں ہیں، موٹر سائیکلیں کہیں زیادہ عام ہیں، 57 فیصد گھرانوں کے پاس صرف ایک موٹر سائیکل ہے، اور تقریباً 4.5 فیصد کے پاس موٹر سائیکل اور کار دونوں ہیں. مزید برآں، 2.7 فیصد گھرانوں کے پاس رکشے ہیں جو بنیادی طور پر تجارتی استعمال کے لیے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ای وی کے لیے مارکیٹ — خاص کر کار کے شعبے میں— محدود ہے اور بلند پیشگی لاگت ای وی کو صرف ایک چھوٹے سے طبقے کے لیے قابل رسائی بناتی ہے، اگرچہ آدھے سے زیادہ گھرانوں کے پاس دو پہیوں والی سواریاں ہیں، لیکن ان کی ابتدائی لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے بجلی کے آپشنز مالی طور پر ناقابل عمل ہو جاتے ہیں، جو زیادہ تر ان پر انحصار کرتے ہیں۔
اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ، الیکٹرک گاڑیوں کو اپنانے کے لیے مزاج میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ روایتی گاڑیوں میں ایندھن بھرنے کے مقابلے میں الیکٹرک وہیکلز کو ری چارج کرنے میں کافی زیادہ وقت لگتا ہے۔
اس کے علاوہ، بین الاقوامی آٹو پارٹس اور آٹوموبائل مینوفیکچرنگ ایک عالمی ویلیو چین میں منتقل ہو گئے ہیں جبکہ پاکستان تمام پیداواری عمل کو مقامی بنانے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے، اس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان میں قائم او ای ایمز اور آٹو پارٹس مینوفیکچررز اعلیٰ معیار کی پیداواری صلاحیت پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ عالمی آٹوموبائل انڈسٹری سے بھی الگ تھلگ ہو گئے ہیں۔
ان مشکلات کی بنیاد پر ، پائیڈ نے 2030 کے لیے قلیل مدتی اہداف، 2035 کے لیے وسط مدتی اہداف اور 2040 کے لیے طویل مدتی اہداف پر مبنی طویل مدتی ای ویز ڈیولپمنٹ پالیسی کا مطالبہ کیا ہے۔
ان اہداف میں 2030 تک تمام نئی گاڑیوں کی 10 فیصد اور رکشوں اور موٹرسائیکل کی 25 فیصد فروخت الیکٹرک وہیکل کی شکل میں کرنے کا ہدف شامل ہے، جبکہ 2040 تک 50 فیصد نئی گاڑیوں اور موٹرسائیکل اور رکشوں کی 75 فیصد فروخت الیکٹرک وہیکلز میں کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔