پاکستان

پہلے میری تجویز مسترد کی، اب وفاق خود کابل سے بات چیت چاہتا ہے، علی امین گنڈاپور

اب وفاقی حکومت نے مجھ سے رابطہ کیا ہے اور کہا ہے کہ مسائل (افغان عبوری حکومت کے ساتھ) مذاکرات کے بغیر حل نہیں ہوں گے، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ افغان عبوری حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کی ان کی سابقہ ​​تجویز کو مسترد کر چکی ہے، لیکن اب خود کابل کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ ہاؤس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی ان کی کال کو مسترد کر دیا گیا اور ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ جب انہوں نے پہلے اختلاف کیا تو وہ بولنے پر مجبور ہوئے کیونکہ خیبر پختونخوا ان مسائل کا شکار صوبہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اب وفاقی حکومت نے مجھ سے رابطہ کیا ہے اور کہا ہے کہ مسائل (افغان عبوری حکومت کے ساتھ) مذاکرات کے بغیر حل نہیں ہوں گے،‘ ساتھ ہی افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں وفاقی حکومت کی جانب سے اب تک کوئی سنجیدگی نظر نہیں آرہی۔

وزیراعلیٰ نے زور دے کر کہا کہ پڑوسی ملک ہونے کے ناطے افغانستان کو مذاکرات میں شامل ہونا چاہیے کیونکہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال بات چیت کے بغیر حل نہیں ہو سکتی۔

عسکریت پسندوں کا حوالہ دیتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق 16 سے 18 ہزار ’عناصر‘ سرحد کے پاکستانی حصے میں کام کر رہے ہیں، جبکہ 22 سے 24 ہزار سرحد پار افغانستان میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سرحد پار عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی کیونکہ جب وہ افغان علاقے میں داخل ہوجاتے ہیں تو وہ پاکستان کی پہنچ سے باہر ہو جاتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان، ایک ہی وقت میں افغانستان کے ساتھ تصادم اور مسائل کو حل کرنے کی کوششوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، خاص طور پر امریکا اور سوویت یونین جیسی سپر پاورز کے خلاف افغانستان کی ماضی کی کامیاب مزاحمت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے افغان عبوری حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جو ان کے بقول اپنی سرحدوں میں امن برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ متعدد بین الاقوامی عناصر افغانستان میں سرگرم ہیں، جو سرحدی علاقے میں دیرینہ عدم استحکام میں حصہ ڈال رہے ہیں۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ پورے ملک کو خیبر پختونخوا کے رہائشیوں کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے کیونکہ یہ فرنٹ لائن پر تھا، عسکریت پسندوں کو صوبے سے آگے بڑھنے سے روک رہا تھا کیونکہ ماضی میں عسکریت پسندوں نے لاہور، کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی میں حملے کیے تھے۔

انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیاسی مرکز کے طور پر خیبر پختونخوا کی اہمیت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی مہمات صوبے سے چلائی جائیں گی۔