دنیا

نئی انتظامیہ کی درخواست پر شام کو فوجی تربیت دینے کیلئے تیار ہیں، ترکیہ

مثبت پیغامات کی وجہ سے نئی انتظامیہ کو حکومت کا ایک موقع دینا چاہیے، وزیر دفاع یسار گولر

ترکیہ کے وزیردفاع یسار گولر نے کہا ہے کہ شام میں نئی انتظامیہ کے مثبت پیغامات کی وجہ سے انہیں حکومت کرنے کا ایک موقع ملنا چاہیے، انقرہ فوجی تربیت کی درخواست پر مدد فراہم کرنے کے لیے تیار رہے گا۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق یسار گولر نے انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’ نئی انتظامیہ نے اپنے پہلے بیان میں تمام حکومتی اداروں، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ بہتر تعلقات کا اظہار کیا ہے۔’

واضح رہے کہ شام میں معزول صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے والے باغیوں کو ترکیہ کی حمایت حاصل رہی ہے۔

دریں اثنا ترکیہ نے شامی دارالحکومت میں اپنے انٹیلی جنس سربراہ کے دورے کے بعد ہفتے کے روز دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولا ہے۔

وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہمارا خیال ہے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ نئی انتظامیہ کیا کرتی ہے، انہیں ایک موقعہ دینا چاہیے۔

ترکیہ کے نئی شامی حکومت کے ساتھ فوجی تعاون کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’ انقرہ کے پہلے ہی کئی ممالک کے ساتھ فوجی تعاون اور تربیتی معاہدے ہیں۔’

یسار گولر کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر نئی اتنظامیہ چاہتی ہے تو ترکیہ ان کو ضروری مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔‘

خیال رہے کہ 2016 سے اب تک ترکیہ نے قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی وجہ سے شمالی شام کے بڑے حصوں میں چار فوجی آپریشنز کیے ہیں۔

ترکیہ شمالی مغربی شام کے علاقوں عفرین، اعزاز، جرابلس اور شمال مشرق میں راس العین اور تل ابیض سمیت قصبوں میں تقریباً چند ہزار فوجی برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔

ترک وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ’مناسب حالات کے پیش نظر‘ انقرہ شام میں ترک فوج کی موجودگی اور اس مسئلے کا جائزہ لینے کے لیے نئی انتظامیہ سے بات چیت کرسکتا ہے۔

دہشت گردوں کا خاتمہ

یسار گولر کا کہنا تھا کہ ترکیہ کی ترجیح کرد ملیشیا ’وائی پی جی ملیشیا‘ کا خاتمہ ہے اور انہوں نے اس حوالے سے واشنگٹن کو تنبیہ بھی کی ہے۔

خیال رہے کہ شام کے سب سے بڑے تیل ذخائر پر قابض سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) داعش کے خلاف امریکی اتحاد کی ایک اہم شراکت دار ہے، اس فورس کی قیادت وائی پی جی کر رہی ہے، جسے انقرہ کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کا تسلسل تصور کرتا ہے، اس کے عسکریت پسند گزشتہ 40 سال سے ترک ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

یسار گولر نے کہا کہ شام میں ’وائی پی جی ملیشیا، ’کردستان ورکرز پارٹی‘ جیسی دہشت گرد تنظیمیں جلد یا بدیر ختم کر دی جائیں گی، تنظیم کے شام کے باہر سے آنے والے ارکان شام چھوڑ دیں گے اور اس میں موجود شامی اپنے ہتھیار ڈال دیں گے۔‘

مستقبل میں شام کی روس میں مداخلت کے سوال پر یاسر گولر کا کہنا تھا کہ وہ روس کا مکمل انخلا نہیں دیکھ رہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ روس اپنے فوجی اثاثوں کو شام کے مختلف حصوں سے اپنے دو مراکز میں منتقل کررہا ہے، ان کا نہیں خیال کہ روسی شام چھوڑنے والے ہیں، وہ وہاں قیام کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔’