جنوبی کوریا: اپوزیشن کا سپریم کورٹ سے معزول صدر کی فوری برطرفی کا مطالبہ
جنوبی کوریا کے اپوزیشن لیڈر نے مختصر مارشل لا کے اعلان کے بعد ملک میں جاری ہیجانی کیفیت کو کم کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے صدر یون سک یول کی معزولی کو فوری طور پر حتمی شکل دینے کا مطالبہ کردیا۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق قائد حزب اختلاف کے رہنما لی جے منگ نے ملک کی اعلیٰ عدالت کے ججوں سے یون سک یول کو عہدے سے ہٹانے کی درخواست کی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز صدر یون سک یول کے خلاف ملک میں مارشل لا نافذ کرنے پر حزب اختلاف کی مواخذے کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد انہیں معطل کردیا گیا تھا جب کہ صدر کی غیر موجودگی میں وزیراعظم ہاں ڈک سو قائم قام صدر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
صدر یون سک یول کے خلاف مواخذے کی تحریک کامیاب ہوتے ہی انہیں عہدے سے معطل کردیا گیا ہے، وہ بحیثیت صدر اب مزید فرائض انجام نہیں دے سکتے جب کہ جنوبی کوریا کی آئینی عدالت ووٹنگ پر غور کر رہی ہے، عدالت کے پاس یون کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ سنانے کے لیے 180 دن ہیں۔
تاہم صدر کو عہدے سے ہٹانے کے متعلق اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ ’ ملک میں عدم استحکام کم کرنے اور لوگوں کی مشکلات کو ختم کرنے کا یہ ہی واحد راستہ ہے۔’
لی جے منگ کا مزید کہنا تھا کہ ’ ایسی صورتحال کے دوبارہ پیدا ہونے اور اس کے ذمہ دار افراد کو کٹہرے میں لانے کے لیے سچ کا سامنے آنا اور احتساب ضروری ہے۔’
دوسری طرف یون سک یول کی جانب سے گزشتہ ہفتے مارشل لا کے اعلان کے بعد ان کے قریبی افراد کی تحقیقات کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں۔
جنوبی کوریا کی خبر رساں ایجنسی ’یون ہاپ‘ کے مطابق پراسیکیوٹرز نے آرمی اسپیشل وارفیئر کمانڈ کے سربراہ کواک جونگ کیون کے وارنٹ گرفتاری کی درخواست کی ہے۔
آرمی اسپیشل وارفیئر کمانڈ کے سربراہ پر ناکام مارشل کے دوران پارلیمنٹ میں فوج بھیجنے کا الزام ہے جبکہ گزشتہ روز پولیس کی جانب سے ڈیفنس کاؤنٹر انٹیلی جنس کمانڈ کے سربراہ کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
دوسری جانب جنوبی کوریا کے اہم اتحادی امریکا نے سیئول کو خطے میں امن کے لیے ناگزیر قرار دیا، صدر یون سک یول کے مواخذے کے بعد جو بائیڈن نے ان خیالات کا اظہار جنوبی کوریا کے وزیراعظم اور عبوری صدر ہان ڈک سو سے فون پر بات چیت کے دوران کیا۔
سیئول پولیس کے مطابق تقریباً 2 لاکھ افراد صدر کو ہٹانے کی حمایت میں پارلیمنٹ کے باہر جمع ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ صدر یون سک یول کی جانب سے چار دہائیوں بعد پہلی بار مارشل لا جیسے اقدام نے جنوبی کوریا کی قوم کو ماضی کی دردناک یادوں میں دھکیل دیا تھا۔
صدر یون کا مارشل لا لگاتے وقت کہنا تھا کہ ’اس اقدام کا مقصد جنوبی کوریا کو ایٹمی قوت کے حامل دشمن ملک شمالی کوریا کے جارحانہ اقدامات سے بچانا اور ریاست مخالف عناصر کی بیخ کنی کرنا ہے۔‘
صدر کے اس اعلان کے بعد سیکیورٹی فورسز نے قومی اسمبلی کو سیل کر دیا تھا اور تقریباً 300 فوجیوں نے بظاہر قانون سازوں کو پارلیمان کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے عمارت کو تالا لگانے کی کوشش کی تھی۔
تاہم پارلیمنٹ کے عملے نے دروازوں کے پیچھے صوفے اور آگ بجھانے کے آلات رکھ کر فوجیوں کو داخلے سے روکنے کی کوشش کی تھی جبکہ رکاوٹیں عبور کرکے بڑی تعداد میں ارکان بھی پارلیمنٹ بھی پہنچ گئے تھے جہاں انہوں نے ووٹنگ کے ذریعے مارشل لا ختم کرنے کا بل منظور کیا تھا۔