پاکستان

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی ایڈوائس ارسال، مدارس رجسٹریشن بل کی منظوری کا امکان

وزیراعظم شہباز شریف نے صدر مملکت آصف علی زرداری کو 17 دسمبر کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی ایڈوائس بھجوائی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے صدر مملکت آصف علی زرداری کو 17 دسمبر کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی ایڈوائس بھجوا دی، جس میں دینی مدارس رجسٹریشن بل کی منظوری کا امکان ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق پارلیمانی ذرائع نے بتایا کہ مشترکہ اجلاس میں دینی مدارس کی رجسٹریشن سمیت 8 بلز کی منظوری کا امکان ہے، دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق نئے بل پر حکومت اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان مشاورت جاری ہے۔

واضح رہے کہ 12 دسمبر کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ مدارس بل ایکٹ بن چکا، نوٹی فکیشن جاری کیا جائے، دینی مدارس کے معاملے کو غیر ضروری طورپر الجھا دیا گیا ہے، ہمارا علما سے کوئی اختلاف نہیں، ہماری شکایت صرف اور صرف ایوان صدر اور صدر مملکت سے ہے۔

دینی مدارس کی رجسٹریشن کےلیے بل حکومت نے تیار کیا تھا، ہم نے 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر الیکشن سے قبل شہباز شریف کی حکومت میں لائے جانے والے مسودے کو منظور کرنے کا مطالبہ کیا، اس کے بعد بل کو دونوں ایوانوں سے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ آئینی ترمیم کے بعد بل پر دستخط کیوں روکے گئے، جس مسودے کی تیاری میں پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) دونوں شریک تھی اس پر صدر آصف علی زرداری کے پاس دستخط نہ کرنے کی کیا گنجائش موجود تھی؟

دریں اثنا، اسی روز (12 دسمبر) جے یو آئی (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے مدارس بل منظور نہ کیے جانے کی صورت میں وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کا عندیہ دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اگر مدارس کے حوالے سے یہی سلسلہ جاری رہا تو ہم اسلام آباد آئیں گے، آپ گولیاں چلائیں گے اور آپ کی گولیاں ختم ہوجائیں گی، ہم واپس نہیں جائیں گے۔

تاہم گزشتہ روز (13 دسمبر) مدارس رجسٹریشن بل پر صدر مملکت آصف زرداری کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات سامنے آئے تھے۔

ڈان نیوز کے مطابق آصف زرداری نے اعتراض میں مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 اور اسلام آباد کیپٹیل ٹیریٹوری ٹرسٹ ایکٹ 2020 کا حوالہ دیا تھا۔

صدر مملکت نے کہا تھا کہ دونوں قوانین کی موجودگی میں نئی قانون سازی ممکن نہیں ہو سکتی، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 اسلام آباد کی حدود میں نافذ العمل ہے۔

انہو ں نے کہا تھا کہ نئے بل میں مدرسہ کی تعلیم کی شمولیت سے 1860 کے ایکٹ کے ابتدائیہ کے ساتھ تضاد پیدا ہو گا، اس قانون کے تحت مدرسوں کی رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خدشہ ہو گا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق رہنما جے یو آئی (ف) حافظ حمد اللہ نے رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ مدارس رجسٹریشن بل پر صدر کے اعتراضات سے بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔

ایک بیان میں حافظ حمد اللہ نے کہا تھا کہ صدر مملکت کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات سے ثابت ہوا کہ پارلیمنٹ پاکستان کا نہیں فیٹف کا پارلیمنٹ ہے۔

آج وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے حافظ حمد اللہ کے بیان پر کہا تھا کہ قانون سازی کا طریقہ کار آئین میں واضح ہے، صدر مملکت نے آئینی اعتراضات لگائے ہیں اوران کی تصحیح بھی آئینی طور پرپارلیمان سے ہونی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر غیر ضروری بیان بازی اور تنقید برائے تنقید سے صدر اور پارلیمنٹ کے اختیارات کو ہدف بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔