پاکستان کی سیاسی تقسیم کا دائرہ امریکا تک پھیل گیا
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے حامی جہاں عمران خان کی رہائی مہم تیز کر رہے ہیں اور 26 نومبر کو اسلام آباد میں پارٹی کی ریلی کے خلاف کی گئی کارروائی کی عالمی سطح پر مذمت کی کوششوں میں مصروف ہیں، وہیں امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں پاکستانی نژاد امریکیوں کے ایک گروپ نے امریکی قانون سازوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد امریکیوں کے درمیان بڑھتا ہوا یہ اختلاف نہ صرف تارکین وطن کے درمیان سیاسی منظر نامے کی پیچیدگی کو اجاگر کرتا ہے بلکہ خود پاکستان میں پائی جانے والی سیاسی تقسیم کا بھی عکاس ہے۔
واشنگٹن میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ اسلام آباد کا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے امریکی قانون سازوں کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران انہوں نے ایک درجن سے زائد قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستان جمہوری طور پر منتخب حکومت کے زیر انتظام ہے۔
ٹیکساس میں قائم گروپ ’اسٹینڈ ود پاکستان‘ کے شریک بانی فیاض حسن کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں پہلے ہی پارلیمنٹ، عدلیہ اور سیاسی جماعتیں موجود ہیں، ہمارے پاس مثالی نہیں لیکن فعال جمہوریت ہے‘۔
تاہم منگل کو واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب میں جمع ہونے والے عمران خان کے حامیوں نے اس سے شدید اختلاف کیا۔ پاکستانی امریکن فزیشنز ایسوسی ایشن (پی اے پی اے) کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر ملک عثمان نے کہا کہ ’جمہوریت میں آپ سیاسی جلسوں پر گولی نہیں چلاتے‘۔
نیشنل پریس کلب کی تقریب میں پی ٹی آئی کے نمائندے سجاد برکی سمیت کئی نمایاں شخصیات شریک ہوئیں جنہوں نے حال ہی میں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر ریپبلکن رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔
اگرچہ سجاد برکی نے ان ملاقاتوں کو ’بہت مثبت‘ اور ’حوصلہ افزا‘ قرار دیا، تاہم انہوں نے ان ملاقاتوں کے مخصوص نتائج کے بارے میں بتانے سے گریز کیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کی رہائی کا وعدہ کیا تھا؟ تو انہوں نے اس سوال کو ٹالتے ہوئے کہا کہ بیرونی قوتیں نہیں بلکہ پاکستان کے عوام ہی ملک میں جمہوریت بحال کریں گے’۔
دیگر مقررین نے 26 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کے دوران کیے گئے مبینہ تشدد پر روشنی ڈالی اور ایک درجن افراد کے نام پڑھ کر سنائے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ مظاہرے کے دوران جاں بحق ہوئے۔
عمران خان کی بہن علیمہ خان نے پاکستان سے ویڈیو لنک کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بہت سے لوگ لاپتا ہیں اور کوئی بھی ان کے بارے میں معلومات شیئر نہیں کر رہا۔‘ انہوں نے الزام عائد کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے پُراَمن مظاہرین پر گولیاں چلائیں، لاشوں کو جائے وقوع سے ہٹادیا اور ہسپتال کا ریکارڈ مٹادیا۔
ان الزامات کو بین الاقوامی مداخلت کے مطالبے کے ساتھ جوڑا گیا تھا، بیرسٹر احتشام امیر الدین نے کہا کہ چونکہ پاکستان میں انصاف کا حصول ناممکن نظر آتا ہے اس لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو آگاہی پیدا کرنی چاہیے، انہوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس معاملے کو بین الاقوامی فوجداری عدالت میں لے جانے پر زور دیا۔
سجاد برکی نے دیگر مقررین کے ساتھ مل کر پاکستانی نژاد امریکیوں پر زور دیا کہ وہ اسلام آباد کے حکمرانوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے پاکستان میں ترسیلات زر میں کمی لانے پر غور کریں، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کے مطالبے کی حمایت نہیں کی۔
جوابی سفارتی کوششیں
پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ کی امریکی قانون سازوں کے ساتھ مصروفیات میں بھی یہ معاملات زیر بحث آئے کیونکہ اسلام آباد پی ٹی آئی کی مہم کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، صرف بدھ کے روز انہوں نے کانگریس کے ارکان کے ساتھ 6 ملاقاتیں کیں، جن میں دو طرفہ تعلقات کے فروغ اور پاکستان کی داخلی سیاست سے متعلق بیانیے پر توجہ مرکوز کی گئی۔
امریکی کانگریس کی رکن میکسین واٹرز کے ساتھ ملاقات میں پاکستانی سفیر نے عوام کے درمیان روابط کو فروغ دیتے ہوئے تجارت، سرمایہ کاری، دفاع اور سلامتی کے تعلقات کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ اسی طرح کی بات چیت کانگریس مین نیل ڈن اور جان ردرفورڈ کے ساتھ ملاقاتوں میں بھی ہوئی، جس میں آنے والی ریپبلکن انتظامیہ کے ساتھ بات چیت پر توجہ مرکوز کی گئی۔
اس کے باوجود سفارت خانے کے بیانات جان بوجھ کر مبہم رہے ہیں، مثال کے طور پر رکن کانگریس نیل ڈن کے ساتھ ملاقات کے بعد سفارت خانے کی جانب سےکہا گیا کہ ’انہوں نے دو طرفہ تعلقات کے وسیع پہلوؤں پر بات چیت کی اور آنے والی کانگریس کے ساتھ تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا‘۔
مسابقتی مہمات
دریں اثنا، اسٹینڈ ود پاکستان مہم نے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا بھر میں ریلیوں، پریس کانفرنسز اور اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
گروپ کے بیان میں پاکستان کے معاملات میں امریکی کانگریس کی مبینہ مداخلت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور پاکستانی امریکیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ’پاکستان کی سیاسی حرکیات کی متوازن تفہیم‘ کو فروغ دیں۔
گروپ نے دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے ساتھ چھٹی سب سے بڑی فوج اور بھارت، چین، افغانستان اور ایران کے قریب ایک اہم ملک کے طور پر پاکستان کی تزویراتی اہمیت کو اجاگر کیا۔
تنظیم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے جمہوری ترقی میں نمایاں پیش رفت کی ہے اور انتخابات کے ذریعے اقتدار کی پرامن منتقلی کی گئی ہے۔
تاہم عمران خان کے حامیوں نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حقیقی جمہوری ترقی کے لیے احتساب اور ریاستی تشدد کے خاتمے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر عثمان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں جو دیکھ رہے ہیں وہ جمہوریت نہیں ہے، یہ حکمرانی کے بھیس میں آمریت ہے۔
پاکستانی امریکیوں کے درمیان متضاد بیانیہ پاکستان بھر میں ہونے والی وسیع تر جدوجہد کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک فریق قومی خودمختاری اور بتدریج اصلاحات پر زور دیتے ہوئے صورتحال کو جوں کا توں برقرار رکھنا چاہتا ہے جبکہ دوسرا فریق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے اور جمہوری اقدار کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے۔
دونوں فریقین کے لیے امریکا، پاکستان کے بارے میں عالمی تصورات پر اثر انداز ہونے کے لیے ایک اہم میدان بنا ہوا ہے۔
جیسا کہ پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ قانون سازوں تک اپنی رسائی جاری رکھے ہوئے ہیں، اور جیسے جیسے ریلیاں اور پریس کانفرنسز سامنے آتی ہیں، پاکستان کے بین الاقوامی تشخص کو تشکیل دینے میں تارکین وطن کا کردار تیزی سے اہم ہوتا جارہا ہے۔