نقطہ نظر

کیا فیصل واڈا پاکستانی سیاست کے اگلے نوابزادہ نصراللہ بننے جارہے ہیں؟

حالیہ برسوں میں جب اقتدار کے لیے سیاسی جماعتیں اتحاد بنانے اور برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرتی نظر آئیں تو نوابزادہ نصر اللہ جیسی شخصیت کی شدت سے کمی محسوس ہوئی۔

سیاسی منظرنامے میں اتحاد بنانے کے لیے جوڑ توڑ کی سیاست کرنے والے ایک نئے شخص کی انٹری ہوئی ہے اور وہ ہیں سینیٹر فیصل واڈا جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں۔

وہ کسی جماعت سے منسلک نہیں لیکن ان کی باتوں کو سب انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ گویا گمان ہوتا ہے کہ جیسے وہ کسی مشن پر مامور ہیں۔ وہ ہر ٹاک شو میں نظر آتے ہیں جہاں یا تو وہ پینل کا حصہ ہوتے ہیں یا بطور مہمان اپنا تجزیہ پیش کررہے ہوتے ہیں جبکہ ٹاک شو میں ان کے مقابل بیٹھے افراد فیصل واڈا کو انتہائی غور سے سنتے ہیں۔

ماضی قریب میں فیصل واڈا تجزیہ کار کے طور پر سیاسی پیش رفت پر منفی تبصرے کرتے نظر آتے تھے۔ تاہم یہ منفی تبصرے وقتی تھے۔ اس سے قبل ان کا شمار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ کراچی میں دہشت گرد حملہ ہو یا پاکستان کی جانب سے کشمیر میں بھارتی طیارہ مار گرانے پر موقع پر بندوق لے کر پہنچنا ہو، فیصل واڈا خبروں میں رہتے تھے۔

وہ اب بھی اپنی سابق جماعت سے متعلق منفی تبصرے کرتے ہیں لیکن اب وہ زیادہ موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ وہ عمران خان کی زندگی کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہیں جبکہ فیض حمید کے ٹرائل کی تاریخوں پر بھی لب کشائی کرتے ہیں۔ وہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے بھی بے باک تجزیہ دیتے ہیں کہ کیسے ان کا سیاسی اثر و رسوخ کم ہورہا ہے۔

ہم سوچتے تھے کہ پاکستان کی سیاست کا مستقبل تاریک ہے لیکن ہمیں پُرامن، محبت اور اتحاد کا پیغام ملا ہے۔ یہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایسا مستقبل ہے جس میں ’ہم ساتھ ساتھ ہیں‘ کا پرچار ہوگا [تاہم مسلم لیگ (ن) بے یقینی کا شکار ہے]۔ فیصل واڈا جنہوں نے پہلے پیش گوئی کی تھی کہ پی ٹی آئی کے پاس عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کوئی امیدوار نہیں ہوں گے، اب وہ پارٹی کو اس کا مینڈیٹ واپس کرنے کے لیے فکر مند ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی منظرنامہ کتنی تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔

کیا فیصل واڈا، نوابزادہ نصر اللہ کا سیاسی کردار ادا کریں گے؟ حالیہ برسوں میں جب اقتدار کے لیے سیاسی جماعتیں اتحاد بنانے اور انہیں برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرتی نظر آئیں تو نوابزادہ نصر اللہ جیسی شخصیت کی شدت سے کمی محسوس ہوئی۔

یہ ضرورت اس وقت بھی محسوس ہوئی کہ جب پی ٹی آئی برسرِاقتدار تھی اور یہ اب بھی محسوس ہورہی ہے کہ جب مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا اتحاد بھی متعدد بحران کا شکار رہا (جب تک اسے راولپنڈی کی سرپرستی حاصل نہ ہوئی)، یہاں تک کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے علحیدگی بھی اختیار کرلی تھی۔

مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام-ف (جے یو آئی-ف)، پیپلز پارٹی سے نالاں تھے جس نے سینیٹ میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ووٹ تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے ردعمل کے طور پر پی پی پی نے غصے میں پی ڈی ایم اتحاد چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت بھی یہ کہا جارہا تھا کہ اس اتحاد کو چلانے والوں میں نوابزادہ نصر اللہ کی طرح صبر یا دانشمندی نہیں تھی جس کی وجہ سے یہ اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔ لیکن اس وقت کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ پی ٹی آئی کو بے دخل کرنے کے لیے تمام جماعتوں کو اکٹھا کرنے والے خفیہ طور پر نوابزادہ نصر اللہ کا کرادر کس نے ادا کیا؟

میں موضوع سے بھٹک گئی۔ فیصل واڈا نے فیصلہ کیا کہ پاکستانی سیاست کو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اتحاد بنائے اور ملکی سیاسی مسائل کو حل کرے۔

تاہم یہ کام موجودہ سیاسی حالات میں زیادہ مشکل ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ پرانے دور میں وہ تمام سیاسی جماعتیں جو اقتدار میں نہیں ہوتی تھیں وہ چاہتی تھیں کہ انہیں اقتدار مل جائے۔ موجودہ دور میں تمام جماعتیں پہلے ہی اقتدار میں ہیں جبکہ جو حصہ نہیں وہ بھی حکومت میں شمولیت اختیار کرسکتی ہیں۔ تاہم پہلے حکومت نے ان سیاستدانوں کو مسلم لیگ (ق) بنانے کی اجازت نہیں دی لیکن انہوں نے ان ناموں کا خیرمقدم کیا جو پہلے ہی سیاست کی دنیا میں اپنا ایک مقام بنا چکے ہیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ کچھ جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں پھر بھی حکومتی اتحاد کا حصہ ہونے کی وجہ سے وہ اپوزیشن سے مذاکرات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی بھی تنہا متحرک ہے جو مسلم لیگ (ق) جیسی جماعتوں کے ساتھ بھی بات چیت کرنے پر آمادہ نہیں۔

اب مذہبی-سیاسی اور قوم پرست جماعتیں رہ جاتی ہیں جو اقتدار کی کشش میں بھی مبتلا ہیں اور اپوزیشن میں ہیں۔ اس کی بہترین مثال جے یو آئی-ف ہے۔ کیا اس سب کے درمیان واقعی نواب نصر اللہ جیسے شخص کی ضرورت ہے جو اتحاد بنائے اور ان تمام جماعتوں کو اکٹھا کرے؟

شاید یہی وجہ ہے کہ فیصل واڈا پرانے وقتوں کی طرح اپوزیشن پر توجہ نہیں دے رہے (یہ 2018ء سے 2022ء میں بھی دیکھنے میں آتا تھا جب پی پی پی سندھ میں اپنی حکومت کے باوجود خود کو اپوزیشن پارٹی کہتی تھی)۔ فیصل واڈا جے یو آئی-ف کے ساتھ ساتھ پی پی پی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) جیسی جماعتوں سے روابط قائم کررہے ہیں جو پہلے ہی حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ وقت بدل گیا ہے اور سیاسی جماعتوں کی پوزیشن میں بھی تبدیلی آئی ہے لیکن اتحاد قائم کرنے کے لیے انہیں جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے جن کے درمیان 1990ء کی دہائی میں اتحاد قائم کرنے کی کوششیں کی جاتی تھیں۔

اسلام آباد میں ہونے والی ان میٹنگز سے ان افواہوں کو تقویت ملتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے بجائے پی پی پی کی قیادت میں نئی حکومت بنائی جائے گی۔ یہ کسی زائد اقساط پر مشتمل ڈرامے کی طرح ہے جس میں کچھ نیا نہیں ہوتا اور ایک ہی کہانی کو بار بار دہرایا جاتا ہے۔

سینیٹر فیصل واڈا شاید یہ دلائل دیں کہ حکومت کی قیادت اس لیے تبدیل ہوگی کیونکہ مسلم لیگ (ن) کا اثر و رسوخ ختم ہورہا ہے لیکن اس کے پیچھے دیگر وجوہات بھی ہیں۔ اصل مسئلہ شاید معیشت ہے جس کے لیے کمیٹیز اور ٹاسک فورسز بنائی جارہی ہیں لیکن حقیقی فیصلے نہیں کیے جارہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی کو جو عوام کی حمایت اور مقبولیت حاصل ہے، وہ حاصل کرنے کی کوششوں میں بھی ناکام نظر آتی ہے جس سے اس کو درپیش مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔

پی ٹی آئی کے مظاہرین کو جبراً اسلام آباد سے نکالنے کی کوششوں کے دوران اور کامیابی کے بعد حکومت بالکل منظرعام سے غائب رہی۔ یہ کام محسن نقوی نے اکیلے کیا جبکہ وزیر اطلاعات نے وقتاً فوقتاً ان کی پریس کانفرنسز میں مہمان خصوصی کی طرح شرکت کی۔ البتہ وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے کہ حالات کو سنبھالنے میں ان کا کیا کردار رہا۔

اگرچہ وزیراعظم معاملات کو قابو میں کرنے کے لیے اپنے آپ کو بھی کریڈٹ دیتے ہیں لیکن پردے کے پیچھے سنگین مسائل ہیں۔ پی ٹی آئی اور اس کے مینڈیٹ پر بات کرکے شاید ان واقعات سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں جو گزشتہ دنوں میں پیش آئے ہیں اور جن کے بارے میں بات نہ کرنے میں بہتری ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے پرانے اور معمر حکومتی اراکین کی جگہ پی پی پی کی نوجوان اور زیادہ متحرک قیادت لے لے تب بھی اصل مسائل اپنی جگہ برقرار رہیں گے۔ شیکسپیئر کے مشہور پلے رومیو اور جولیٹ کے قول کے مطابق، ’چاہے گلاب کا نام جو بھی ہو، اس کی خوشبو میٹھی ہی ہوگی‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عارفہ نور
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔