دنیا

شام میں اقتدار حزب اختلاف کے حوالے کرنے پر رضامند ہیں، سابق وزیراعظم

شام میں سب سے اہم کام ایک عبوری حکومت تشکیل دینا ہے، جو ملک کی تمام برادریوں کی نمائندگی کرے، تجزیہ کار

صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد شام کے سابق وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے کہا ہے کہ وہ اقتدار حزب اختلاف کے حوالے کرنے پر رضامند ہیں۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم نے العربیہ ٹی وی کو بتایا کہ اقتدار ادلب میں قائم شامی سالویشن حکومت کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

یہ پیش رفت شامی اپوزیشن قوتوں کی جانب سے جاری کی گئی ایک ویڈیو کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں محمد غازی الجلالی کو ہیئت تحریر الشام کے سربراہ احمد الشارع اور سالویشن گورنمنٹ کے سربراہ محمد البشیر سے ملاقات کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

قبل ازیں، رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم محمد غازی الجلالی کی کابینہ کے بیش تر اراکین اب بھی بدستور اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں تاکہ اقتدار کی فوری اور ہموار منتقلی کو یقینی بنایا جا سکے۔

تجزیہ کار نکولس اے ہیرس کا کہنا ہے کہ شام میں سب سے اہم کام ایک عبوری حکومت تشکیل دینا ہے، جو ملک کی تمام برادریوں کی نمائندگی کرے اور ملک کی تعمیر نو اور سلامتی کی پالیسیوں میں ہم آہنگی پیدا کرسکے۔

نکولس اے ہیرس نے الجزیرہ کو بتایا کہ بدقسمتی سے جنگ کی وجہ سے شام کی معیشت تباہ ہو چکی ہے، جسے ٹھیک کرنے کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

ممکنہ طور پر بیرون ملک سے وطن واپس آنے والے لاکھوں افراد ہوں گے جنہیں شامی معاشرے میں دوبارہ ضم کرنے کی ضرورت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ مختلف کرداروں میں بہت سے مسلح جنگجو بھی ہیں، جنہیں ملک کی سیکیورٹی فورسز میں شامل کرنے کی ضرورت ہوگی، صرف ایک بااختیار عبوری حکومت ہی ان ضروریات کو پورا کر سکتی ہےاور ملک چھوڑنے کے لیے شام کی سرزمین پر موجود غیرملکی عناصر کے ساتھ مذاکرات کی بھی کوشش کرسکتی ہے۔

نکولس اے ہیرس کا مزید کہنا تھا کہ شام میں مختلف پاور بروکرز کے ساتھ بہت سے علاقے ہیں، جن میں سے ہر ایک کے اپنے مخصوص حالات ہیں جو جنگ کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں، ان کے لیے عبوری حکومت کی طرف سے مناسب نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شام کے مستقبل کے استحکام اور کامیابی کیلئے ایک مربوط قومی پالیسی کے تحت مختلف علاقائی طاقتوں کو مصالحت کرنا بہت ضروری ہے۔

واضح رہے کہ 8 دسمبر کو شام کے صدر بشار الاسد 24 سالہ اقتدار کے خاتمے پر ملک سے فرار ہوگئے تھے، باغیوں کی جانب سے سرکاری ٹی وی پر دمشق کی فتح کا اعلان نشر ہوتے ہی ہزاروں افراد نے دارالحکومت کے مرکز میں واقع امیہ چوک میں آزادی کا جشن منایا تھا۔

باغیوں کا کہنا تھا کہ ’ہم شامی عوام کے ساتھ اپنے قیدیوں کی رہائی اور ان کی زنجیریں ٹوٹنے کی خبر پر جشن مناتے ہیں اور سدنیا جیل میں ناانصافی کے دور کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں‘۔