دنیا

نرسنگ، مڈوائفری کورسز سے روکنے پر افغان خواتین مایوسی کا شکار

میڈیکل ٹریننگ میرے لیے زندگی میں کچھ کرنے، کچھ بننے کی میری آخری امید تھی، لڑکی ہونے کے جرم کی وجہ سے ہم سے سب کچھ چھین لیا گیا، متاثرہ لڑکی

طالبان حکومت کی جانب سے افغانستان میں نرسنگ اور مڈوائفری کورسز کلاسز لینے سے روکنے پر خواتین مایوسی کا شکار ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 2 سال قبل افغانستان کی یونیورسٹیوں میں خواتین پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد سجا کے لیے کابل کے ایک ہیلتھ کیئر انسٹی ٹیوٹ میں نرسنگ کی تعلیم حاصل کرنا زندگی میں کچھ کرنے کا جیسے آخری موقع تھا۔

لیکن متعدد ذرائع کے مطابق طالبان حکومت نے افغان خواتین کے لیے میڈیکل ٹریننگ حاصل کرنے پر پابندی کا حکم دے کر اس عزائم کو کچل دیا ہے جب کہ اس حکم سے اداروں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

خواتین پر پابندی سے عائد کیے جانے سے قبل یونیورسٹی میں پڑھنے والی سجا نے جب یہ خبر سنی تو اسے ایسا لگا جیسا کہ اس نے وہی ڈراؤنا خواب دوبارہ دیکھ لیا۔

لڑکی جس کا فرضی نام سجا ہے، نے کہا کہ میڈیکل ٹریننگ میرے لیے کچھ کرنے، کچھ بننے کی میری آخری امید تھی، لڑکی ہونے کے جرم کی وجہ سے ہم سے سب کچھ چھین لیا گیا۔

افغانستان بھر میں اداروں کی انتظامیہ بے یقینی صورتحال کا شکار ہے جب کہ کچھ عہدیداروں نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اس وقت تک معمول کے مطابق کام کریں گے جب تک کہ انہیں تحریری احکامات نہیں مل جاتے جب کہ کچھ ادارے فوری طور پر بند کردیے گئے۔

22 سالہ سجا نے کہا کہ ہر کوئی الجھن کا شکار ہے اور کوئی بھی یہ بات نہیں بتا رہا ہے کہ ہر اصل میں کیا ہو رہا ہے۔

کابل میں موجود ایک نجی ادارے میں 11 سو طلبا زیر تعلیم ہیں، جن میں سے 700 خواتین ہیں، اس کے ڈائریکٹر نے کہا ہمیں طلبا اور اساتذہ کی طرف سے بہت تشویشناک پیغامات موصول ہو رہے ہیں اور وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے اور پوچھ رہے ہیں کہ کیا کوئی امید ہے؟

وزارت صحت کے ذرائع کے مطابق 35 ہزار خواتین اس وقت تقریباً 10 سرکاری اور 150 سے زیادہ نجی اداروں میں زیر تربیت ہیں، یہ ادارے نرسنگ، مڈوائفری، دندان سازی اور لیبارٹری میں کام کرنے سے متعلق مضامین میں 2 سالہ ڈپلومہ کرا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ **3 دسمبر کو** افغانستان میں نرسنگ اور مڈوائفری کورسز پیش کرنے والے کئی اداروں کے سینئر ملازمین نے کہا تھا کہ طالبان کے سپریم لیڈر کے ایک غیر تحریری حکم نامے کے بعد خواتین کو کلاسز لینے سے روک دیا جائے گا۔

خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق صحت عامہ کی وزارت کے ایک عہدیدار، جنہیں میڈیا سے بات کرنے کا اختیار نہیں تھا، نے انکشاف کیا تھا کہ صحت کے حکام نے پیر کو دارالحکومت کابل میں تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹرز سے ملاقات کی تاکہ انہیں اس فیصلے سے آگاہ کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’اب تک کوئی سرکاری خط سامنے نہیں آیا ہے لیکن اداروں کے ڈائریکٹرز کو ایک ملاقات میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں اب ان کے اداروں میں مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ان ڈائریکٹرز کو کوئی تفصیلات اور جواز فراہم نہیں کیا گیا اور صرف سپریم لیڈر کے حکم کے بارے میں بتایا گیا اور اس پر عمل درآمد کرنے کو کہا گیا تھا۔‘

ملاقات میں شرکت کرنے والے ایک انسٹی ٹیوٹ کے منیجر نے بتایا کہ درجنوں مینیجر ملاقات میں موجود تھے۔

ایک اور سینٹر کے ایک سینئر ملازم نے بتایا تھا کہ ان کے باس نے اس حکم کے بارے میں الجھن کے بعد منگل کو حکام صحت کے ساتھ ایک الگ ملاقات کی۔ ملازم نے بتایا کہ اداروں کو فائنل امتحانات کے لیے 10 دن کا وقت دیا گیا ہے۔

کچھ مینیجرز نے وضاحت کے لیے وزارت سے درخواست کی، جبکہ دیگر نے تحریری حکم کی عدم موجودگی میں معمول کے مطابق کام جاری رکھا ہوا ہے۔

وزارت صحت کے ذرائع نے بتایا تھا کہ افغانستان میں لگ بھگ 10 سرکاری اور 150 سے زیادہ نجی صحت کے ادارے ہیں جو 18 مضامین میں دو سالہ ڈپلومے پیش کرتے ہیں، جن میں مڈوائفری سے لے کر اینستھیزیا، فارمیسی اور دندان سازی شامل ہیں، جن میں کُل 35 ہزار خواتین طالبات زیر تعلیم ہیں۔

2021 میں طالبان کے حکام کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد، اقوام متحدہ کی طرف سے ’جنسی عصبیت‘ کھلائی جانے والی پابندیوں کے تحت لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول سے آگے کی تعلیم سے روک دیا تھا۔

خواتین طالبات نے اس کے بعد صحت کے اداروں کا رخ کیا، جو ان چند تعلیمی میدانوں میں سے ایک ہے جو ان کے لیے اب بھی کھلے ہیں۔ اب خواتین ان مراکز میں طلبہ کی اکثریت ہیں۔

ایک مینیجر نے کہا کہ ’اب ہم اپنے صرف 10 فیصد طلبہ کے ساتھ کیسے آگے بڑھیں گے؟‘

کابل کے ایک نجی انسٹی ٹیوٹ کی 28 سالہ خاتون مڈوائفری ٹیچر عائشہ (فرضی نام) نے کہا کہ انہیں انتظامیہ کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں انہیں بہت کم وضاحت کے ساتھ کہا گیا تھا کہ وہ اگلے نوٹس تک کام پر نہ آئیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ ہمارے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے۔ نفسیاتی طور پر، ہم ہل گئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ان لڑکیوں اور خواتین کے لیے امید کا واحد ذریعہ تھا جن پر یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔‘

برطانیہ کے ناظم الامور نے کہا تھا کہ وہ ان رپورٹس سے ’سخت فکر مند‘ ہیں۔

انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پوسٹ میں کہا تھا کہ ’یہ خواتین کے تعلیم کے حق کی ایک اور توہین ہے اور افغان خواتین اور بچوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کو مزید محدود کر دے گی۔‘

وزارت صحت کے ذرائع نے کہا تھا کہ اس پابندی سے پہلے سے مشکلات کے شکار صحت کے شعبے کو مزید نقصان پہنچے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس پہلے ہی پیشہ ور میڈیکل اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی کمی ہے اور اس پابندی کے نتیجے میں مزید کمی ہوگی۔‘