مافیا ہسپتالوں سے طبی فضلہ چوری کرکے برتن، کھلونے بنا رہا ہے، قائمہ کمیٹی کو بریفنگ
پاکستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (پاک ای پی اے) اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نے انکشاف کیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت کے تمام سرکاری بنیادی ہیلتھ مرکز میڈیکل ویسٹ کے حوالے سے اپنی کوئی رپورٹ جمع نہیں کراتے ہیں، طبی فضلہ ایک بڑا چیلنج ہے جب کہ منظم مافیا اسے چوری کرکے اس سے سستے برتن اور کھلونے بنا رہا ہے۔
شائستہ پرویز ملک کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، اجلاس میں میڈیکل ویسٹ کا ایجنڈا زیر بحث آیا۔
ممبر کمیٹی شازیہ سومرو نے کہا کہ میڈیکل ویسٹ بھی ماحول میں آلودگی کا بڑا سبب ہے، اس کے خلاف کیا کارروائیاں ہو رہی ہیں، بلیو ایریا میں بہت زیادہ نجی لیبز بنی ہوئی ہیں، کیا کوئی میڈیکل رپورٹ دے رہا ہے؟
ڈی جی ای پی اے اسلام آباد نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دی کہ ہسپتالوں سے میڈیکل ویسٹ چوری ہو رہا ہے، یہ ایک منظم مافیا ہے، راولپنڈی کے پبلک ہسپتالوں سے ویسٹ اسلام آباد کے گوداموں سے پکڑا ہے، ہسپتالوں کا ویسٹ بہت بڑا چیلنج ہے، اس سے سستے کھلونے، برتن بنائے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو میڈیکل ویسٹ پر ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہیں، کیپیٹل ڈیولمپنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)، قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ)، اٹامک انرجی کمیشن کے ہسپتالوں کے میڈیکل ویسٹ کے حوالے سے کسی نے کوئی رپورٹ جمع نہیں کرائی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ اسلام آباد کے جو سرکاری بی ایچ یوز ہیں، کسی نے میڈیکل ویسٹ پر رپورٹ جمع نہیں کرائی ہے، یہ سارے ایسے ہسپتال ہیں جو میڈیکل ویسٹ پر رپورٹ نہیں دیتے ہیں، آغا خان لیب بہت بڑا سیٹ اپ ہے، وہ میڈیکل ویسٹ پر رپورٹ نہیں دے رہے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس سارے معاملے پر لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے، میڈیکل ویسٹ پر آگاہی مہم چلانی چاہیے تاکہ لوگوں میں شعور پیدا ہوسکے۔
اجلاس میں پاکستان میں ایئر کوالٹی سے متعلق ایجنڈا پر ڈی جی ای پی اے اسلام آباد نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ اسلام آباد میں بڑا مسئلہ ٹریفک ہے، جو ہوا میں آلودگی کا سبب بنتا ہے، خزاں کے موسم میں لوگ پتے اکٹھے کر کے آگ لگا دیتے ہیں، ستمبر، اکتوبر سے کسان ایگریکلچر ویسٹ کو جلانا شروع کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رولز کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائیوں کے ساتھ گرفتاریاں بھی کررہے ہیں، اسلام آباد کی آبادی 25 لاکھ ہوچکی ہے، پبلک روٹس پر پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے،6 لاکھ نجی گاڑیاں اسلام آباد کی سڑکوں پر چل رہی ہیں، جن کا دھواں آلودگی کا سبب بنتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں سب سے بڑی سبزی منڈی ہے، جہاں بھاری ٹرانسپورٹ کا آنا جانا رہتا ہے، ایچ 13 سیکٹر میں لوگوں نے گھروں میں غیر قانونی فوڈ انڈسٹری بنالی ہے۔
پنجاب کی ایئر کوالٹی پر ڈی جی ای پی اے پنجاب نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دی کہ پنجاب میں ماحول دوست اقدامات کے لیے درجنوں کارروائیاں کی ہیں، پنجاب میں 1373 کی ہیلپ لائن لانچ کی ہے، پنجاب میں انوائرمنٹل فورس بنانے جارہے ہیں، 30 ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم پنجاب میں بنانے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے استعمال شدہ طبی آلات کی مارکیٹ میں فروخت کا معاملہ سامنے آیا تھا اور اس وقت پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے سربراہ وزیر اعظم شہباز شریف نے نوٹس لیتے ہوئے وزارت صحت کو اندرونی انکوائری کے بجائے آزادانہ انکوائری کی ہدایت کی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نے 48 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کی تھی جس میں معاملے کے حقائق، ذمہ داریوں کے تعین اور مستقبل میں کچرے کو ٹھکانے لگانے میں خامیوں سے بچنے کے لیے اقدامات شامل ہیں۔
خیال رہے کہ پمز انتظامیہ کی جانب سے ہسپتال کے احاطے میں طبی فضلے کو جلانے کے لیے رکھا گیا شخص ہسپتال کے ملازمین کے ساتھ مل کر ضائع شدہ سرنجوں اور خون کے تھیلوں جیسے انفیکشن زہ مواد کی فروخت میں ملوث پایا گیا۔
یہ مواد کھلونے، جوتے اور دیگر مصنوعات بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن انتظامیہ کو اس بات کا خدشہ ہے کہ استعمال شدہ سرنج اور گلوکوز کے تھیلے خریدار دوبارہ استعمال کر سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایچ آئی وی/ایڈز، کینسر اور ہیپاٹائٹس کی وبا پھیل سکتی ہے۔
اس انکشاف کے بعد پمز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر نعیم ملک نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی تھی اور آئی جی اسلام آباد کو خط بھی لکھا تھا جس میں بتایا گیا کہ پمز کے ملازمین بھی اس اسکینڈل میں ملوث ہیں، اس غیر قانونی کام میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے ایف آئی آر درج کی جائے۔
انتظامیہ نے ایک کمپنی کی خدمات حاصل کر رکھی تھی جو ہسپتال کے فضلے کو جمع کرنے اور اسے احاطے میں جلانے کے لیے ماہانہ 14 لاکھ روپے وصول کرتی ہے تاکہ انفیکشن زدہ فضلہ کی ری سائیکلنگ کو روکا جا سکے، تاہم یہ فضلہ سیکٹر جی الیون کے مقامی ڈپو میں فروخت کیا جا رہا تھا۔
دنیا بھر میں اس طرح کے فضلے کو جلانے کے لیے انسینریٹرز کا استعمال کیا جاتا ہے، ان میں ہسپتال کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے پرائمری اور سیکنڈری چیمبر ہونے چاہئیں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دھوئیں کو بھی پروسیس کرنا چاہیے۔