پاکستان

موجودہ نظام برقرار رکھا جائے، تبدیلی کی کوئی کوشش قابل قبول نہیں، مدارس عربیہ اجتماع میں علما کا اتفاق

نظام سےلاکھوں طلبہ کا مستقبل وابستہ ہے، حکومت کسی دباؤ میں اسے تبدیل یا ختم نہ کرے، علامہ طاہر اشرفی کی پیش کی گئی قرارداد کا متن

مدارس کی رجسٹریشن و اصلاحات سے متعلق علما و مشائخ کے اجلاس میں مدارس کے موجودہ نظام کو برقرار رکھنے پر اتفاق کرلیا گیا۔

پاکستان علما کونسل کے مرکزی چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کی طرف سے پیش کی گئی قراداد میں کہا گیا کہ کسی بھی صورت موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کی کوئی کوشش قابل قبول نہیں ہو گی، ڈائریکٹر جنرل مذہبی تعلیم (ڈی جی آر ای) کے نظام کو ختم نہیں کرنا چاہیے، مدارس کو اسی نظام تعلیم سے ہی وابستہ رکھا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کسی دباؤ میں آکر نظام کو تبدیل یا ختم نہ کرے، اس نظام سےلاکھوں طلبہ کا مستقبل وابستہ ہے۔

قرارداد میں اپیل کی گئی ہے کہ کسی قانون سازی سے متعقل تمام مدارس کے بورڈز کے قائدین سے مشاورت کی جائے۔

قبل ازیں مدارس کی رجسٹریشن و اصلاحات سے متعلق علما و مشائخ کے اجلاس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے کہا تھا کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے اور ان کی رجسٹریشن کے لیے وسیع ترمشاورت کے بعد نظام وضع کیا گیا، اس نظام کے تحت 18ہزار مدارس نے رجسٹریشن کرائی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی قانون بنتا ہے، اس کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ ہوتا ہے، جب مدارس کو وفاقی وزارت تعلیم کے ماتحت کیا گیا تو اس کے فوائد آئے، اسی وزارت تعلیم کے تحت ایچ ای سی اور تمام جامعات ہیں۔

اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ علامہ راغب نعیمی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کا معاملہ مذہبی ہے، اسے اکھاڑا نہ بنایا جائے، اب مدارس کے نظام کو کوئی بیرونی خطرہ نہیں، ڈائریکٹوریٹ جنرل مذہبی تعلیم نے بہت سے مسائل حل کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبا کی ڈگری ایم اے کے مساوی دی جاتی ہے، اسے بی ایس کا درجہ دیا جائے۔

اجلاس علما کو تقسیم کرنے کی سازش ہے، مولانا فضل الرحمٰن

دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے چارسدہ میں گفتگو کرتے ہوئے آج بلائے جانے والے اجلاس کو علما کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا۔

خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں پریس کرنفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ علما کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی، علما کے مقابلے میں علما کو لایا جارہا ہے، حکومت اس معاملے کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائے، اس وقت ہمیں حکومت کی کوئی تجویز قبول نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم قانون کی بات کررہے ہیں، مدرسوں کو ایک معاہدے سے وابستہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہم مدارس کو قانون کے تحت رجسٹر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، حکومت اس معاملے کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائے۔

واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ روز پشاور میں اسرائیل مردہ باد کانفرنس سے خطاب میں کارکنوں مدارس کے حوالے سے بل پر حکومتی وعدہ خلاف پر اسلام آباد کی جانب مارچ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی تھی۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت میں ایک بل پر بات چیت کی تھی اور حکومت نے اس کا مسودہ تیار کیا تھا جس پر دینی مدارس نے اتفاق کیا، بل کو اسمبلی میں پیش کیا گیا جس پر کچھ قوتوں نے مداخلت کی اور اسے رکوا دیا۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا تھا آئینی ترمیم کے وقت کہا گیا کہ ایک چیز جو طے ہو چکی ہے اس کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے منظور کیا جائے، کراچی میں چیئرمین پیپلز پارٹی سے ملاقات میں آئینی ترمیم اور دینی مدارس کے بل پر 5 گھنٹے بات چیت کی جس کے بعد ہمارا اتفاق رائے ہوگیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد سابق وزیراعظم اور قائد مسلم لیگ (ن) نوازشریف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے بھی بات چیت کی اور ہمارے درمیان اتفاق رائے طے پایا، پارلیمانی ارکان سے بھی ساری تفصیلات شیئر کی اور انہوں نے بھی اس بل پر حامی بھری۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھاکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے بل پر ووٹ دیا اور اس کو منظور کرایا، تمام حکومتی اتحادیوں کی اتفاق رائے سے یہ بل قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا، دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد سب چیزوں پر دستخط کیے گئے لیکن مدارس کے بل پر دستخط کیوں نہیں کیے گئے؟

سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا بل کی تیاری اور منظوری میں شریک ہونے کے باوجود اس پر دستخط نہ کرنا دھوکہ دہی اور فراڈ ہے۔