آزاد کشمیر: متنازع قانون کی منسوخی میں تاخیر پر مظاہرین کا احتجاج جاری
آزاد جموں و کشمیر میں صدارتی آرڈیننس سے متعلق حکومت کی جانب سے مطالبات پورے نہ کیے جانے پر مظاہرین کے قافلے آزاد جموں و کشمیر کے مرکزی داخلی راستوں پر جمع ہوگئے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متنازع صدارتی آرڈیننس کی منسوخی کے لیے شہری تنظیموں کے اتحاد کی کال پر مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال نے جمعہ کو آزاد جموں و کشمیر کو مفلوج کر دیا ہے۔
اگرچہ صدر آزاد کشمیر نے وزیر اعظم کو متنازع قانون کو منسوخ کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم مظاہرین نے آج (اتوار) کو دارالحکومت کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔
یاد رہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں صدارتی آرڈیننس ’پرامن اسمبلی اور پبلک آرڈر آرڈیننس 2024‘ کے ذریعے کسی بھی احتجاج اور جلسے سے ایک ہفتے قبل ڈپٹی کمشنر سے اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا تھا، اس کے علاوہ کسی غیر رجسٹرڈ جماعت یا تنظیم کے احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
آزاد جموں و کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر اس قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ انہوں نے مقامی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس قانون کے تحت حراست میں لیے گئے تمام مظاہرین کو رہا کرے۔
سول سوسائٹی کے اتحاد جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے کے جے اے اے سی) نے ہفتہ کو حکومت کو اپنے 2 مطالبات (متنازع آرڈیننس کی منسوخی اور 14 زیر حراست کارکنوں کی غیر مشروط رہائی) پورے کرنے کے لیے صبح 11 بجے تک ڈیڈ لائن دی تھی۔
ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد ہزاروں کارکنوں نے برار کوٹ، کوہالہ، ٹین ڈھل کوٹ، آزاد پتن، ہولار اور منگلا میں مرکزی داخلی راستوں کی طرف مارچ شروع کیا جو آزاد کشمیر کو خیبر پختونخوا اور پنجاب سے جوڑتے ہیں۔
مظفرآباد میں جے کے جے اے سی کور کمیٹی کے رکن شوکت نواز میر نے اعلان کیا کہ دارالحکومت اور نیلم اور جہلم وادی کے اضلاع سے ریلیاں برار کوٹ کی طرف مارچ کریں گی، جو خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ ضلع کی سرحد سے متصل ہے۔
اسی طرح باغ اور حویلی کے کارکنوں کو کوہالہ میں جمع ہونا تھا جب کہ پونچھ اور سدھنوتی کے کارکنوں نے آزاد پٹن اور ٹین ڈھل کوٹ کی جانب مارچ کیا، میرپور ڈویژن میں مظاہرین نے ضلع کوٹلی میں ہولار اور ضلع میرپور میں منگلا کی طرف مارچ کیا۔
ہڑتالیں اور مذاکرات
ہفتہ کے روز آزاد کشمیر کے بیشتر علاقوں میں مارکیٹیں بند رہیں اور سڑکوں پر ٹریفک بھی معمول سے کم تھا جب کہ مظفر آباد میں کاروبار صبح سویرے بند ہوگیا تھا اور مقامی افراد لال چوک پر جمع ہو گئے تھے۔
سہ پہر تین بجے تک کابینہ کے ارکان پیر مظہر سعید، عبدالماجد خان، دیوان علی خان چغتائی اور تکدیس گیلانی پر مشتمل حکومتی وفد مظاہرین سے مذاکرات کے لیے احتجاجی مقام سے کچھ ہی فاصلے پر میونسپل کارپوریشن کی عمارت پہنچے۔
حکومتی وفد نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو بتایا کہ مظفرآباد میں حراست میں لیے گئے دو کارکنوں خواجہ مجتبیٰ بنڈے اور علی شمریز کو رہا کر دیا گیا ہے۔
سٹی کونسلر اور ممتاز احتجاجی رہنما فضل محمود بیگ نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے منگل تک آرڈیننس واپس لینے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ احتجاجی رہنماؤں نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور اپنی شرائط فوری ماننے کا مطالبہ کیا۔
بعد ازاں حکومتی وفد نے قانون واپس لینے کے لیے ایک گھنٹے کا وقت مانگا تاہم حکومت کی جانب سے باضابطہ نوٹی فکیشن جاری نہ کیے جانے کی وجہ سے جے کے جے اے اے سی رہنماؤں نے مغرب کے وقت برار کوٹ تک مارچ شروع کرنے کا اشارہ دیا۔
یہ خبر درج ہونے تک ایک بڑی تعداد برارکوٹ پہنچ چکی تھی، ضلع پونچھ میں کارکنوں سے بھری گاڑیاں سردار عمر نذیر کشمیری کی قیادت میں ضلع ہیڈکوارٹر راولاکوٹ سے کوہالہ کی طرف روانہ ہوئیں۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ باغ اور حویلی اضلاع سے سینکڑوں مظاہرین قافلے میں شامل ہوئے، ایک مقامی صحافی کے مطابق رات ساڑھے 9 بجے تک کوہالہ میں تقریبا 10 ہزار لوگ جمع ہو چکے تھے۔
تاہم میرپور اور بھمبر کے اضلاع میں ردعمل سست رہا کیونکہ میرپور میں احتجاجی رہنماؤں نے اتوار کو منگلا پل تک مارچ کرنے کا اعلان کیا۔
مظاہرین کی آج کی منصوبہ بندی
جے کے جے اے اے سی ذرائع نے تصدیق کی کہ کارکن صبح دارالحکومت میں قانون ساز اسمبلی کی طرف مارچ کرنے سے پہلے داخلی راستوں پر رات گزاریں گے۔
پیپلز پارٹی کے 13 رکنی پارلیمانی گروپ کا اجلاس کراچی میں ہوا جس کی صدارت فریال تالپور نے کی، اس میں آزاد جموں و کشمیر حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس آرڈیننس کو فوری طور پر واپس لے۔
آصف زرداری ہاؤس کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’پارلیمانی پارٹی نے آرڈیننس کو مسترد کرتے ہوئے اسے عوام کی امنگوں اور جمہوری حقوق کے منافی قرار دیا ہے‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے 13 رکنی پارلیمانی گروپ میں سے 10 وزیر اعظم کی کابینہ میں شامل ہیں، خیال کیا جاتا ہے کہ آرڈیننس کے اجرء سے قبل اس کی منظوری دے دی گئی تھی۔
صدارتی آرڈیننس
یاد رہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کسی بھی احتجاج اور جلسے سے ایک ہفتے قبل ڈپٹی کمشنر سے اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا تھا، اس کے علاوہ کسی غیر رجسٹرڈ جماعت یا تنظیم کے احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
اس آرڈیننس کو مرکزی بار ایسوسی ایشن مظفر آباد اور آزاد کشمیر بار کونسل کے 3 ارکان نے آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
ہائی کورٹ نے ان درخواستوں کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد درخواست گزاروں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ آف آزاد کشمیر میں درخواست دائر کردی تھی۔
تاہم سپریم کورٹ آف آزاد جموں و کشمیر نے پرامن احتجاج اور امن عامہ سے متعلق آرڈیننس 2024 کا نفاذ معطل کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 2 اپیلیں منظور کرلی تھیں، تاہم عوامی ایکشن کمیٹی نے آرڈیننس کی منسوخی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔