پاکستان

مارگلہ ہلز میں جتنی تباہی خیبرپختونخوا میں ہوئی، ہم سوچ بھی نہیں سکتے، جسٹس مسرت ہلالی

کیا عدالتی حکم صرف مونال کیلئے تھا، سی ڈی اے حکم عدولی کیوں کر رہا ہے؟ آئینی بینچ نے سی ڈی اے سے مارگلہ ہلز میں غیر قانونی تعمیرات پر مفصل رپورٹ طلب کرلی۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سی ڈی اے سے مارگلہ ہلز میں غیر قانونی تعمیرات پر مفصل رپورٹ طلب کرلی، دوران کیس جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ مارگلہ ہلز میں جتنی بربادی خیبر پختونخوا میں ہوئی، ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی آئینی بینچ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں غیر قانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

مونال کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ عدالت کے حکم پر ہمارا ریسٹورنٹ گرا دیا گیا، لیکن مارگلہ ہلز میں ابھی 134 کے قریب ہوٹل ریسٹورنٹس اور کھوکھے موجود ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ آپ کہتے ہیں خود کھائیں گے نہ کسی کو کھانے دیں گے، مارگلہ ہلز محفوظ علاقہ ہے، وہاں ہر قسم کی تعمیرات کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر استفسار کیا کہ مارگلہ ہلز میں ابھی کتنی غیر قانونی تعمیرات باقی ہیں؟ وکیل میونسپل کارپوریشن نے بتایا کہ مارگلہ میں 80 سے 132 تعمیرات باقی ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا آرڈر صرف مونال کے لیے تھا، عدالت نے مارگلہ ہلز میں تعمیرات کے حوالے سے اصول طے کردیا ہے، سی ڈی اے اپنا کام کیوں نہیں کرتا؟

ڈی جی ماحولیاتی ایجنسی نے عدالت کو بتایا کہ مارگلہ ہلز میں ابھی 50 سے زائد کھوکھے چل رہے ہیں، جو ماحولیاتی مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سی ڈی اے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کیوں کر رہا ہے؟

وکیل میونسپل کارپوریشن نے کہا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں اسلام آباد کلب بھی آجاتا ہے، اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بات مارگلہ ہلز کی ہوتی ہے، آپ سپریم کورٹ اور اسلام آباد کلب چلے جاتے ہیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ 1960 کے ماسٹر پلان میں سپریم کورٹ بھی مارگلہ نیشنل پارک میں تعمیر ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سی ڈی اے پہلے مونال کے اطراف میں غیر قانونی تعمیرات کو دیکھ لے، سی ڈی اے مارگلہ ہلز اور اطراف سے فارغ ہوکر پھر سپریم کورٹ کو سی ڈی اے دیکھ لے۔

سی ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عدالتی احکامات میں کھوکھوں کو گرانے سے روک دیا گیا تھا، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ رپورٹ دیں کہ مارگلہ ہلز میں کتنے کھوکھے ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جتنی بربادی خیبر پختونخوا میں مارگلہ ہلز میں ہوئی، سوچ نہیں سکتے، ناران جاکر دیکھیں وہاں کیا حال ہے، دریں اثنا، آئینی بینچ نے سی ڈی اے مارگلہ ہلز میں غیر قانونی تعمیرات پر مفصل رپورٹ طلب کرلی۔

پس منظر

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے رواں سال 10 ستمبر کو مارگلہ ہلز پر قائم معروف ریسٹورنٹ مونال، لا مونتالہ، گلوریہ جینز سمیت دیگر ریسٹورنٹس کو ہٹانے، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو نیوی گالف کلب کا قبضہ لینے کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم برقرار رکھتے ہوئے نظرثانی درخواستیں خارج کردی تھیں۔

سپریم کورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک میں تجارتی سرگرمیوں پر نظرثانی درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے ریسٹورنٹس کے حق میں دیے گئے ریمارکس واپس لے لیے تھے، اس کے علاوہ مونال اور دیگر ریسٹورنٹس کو کسی اور مقام پر لیز کے وقت ترجیح دینے کے ریمارکس بھی واپس لے لی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا تھا کہ مونال ریسٹورنٹ، لا مونتالہ اور دیگر ریسٹورنٹس نے رضاکارانہ طور پر 3 ماہ میں سرگرمیاں ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، عدالت میں یقین دہانی کے باوجود نظرثانی دائر کرنا توہین آمیز اور عدالت کے ساتھ مذاق ہے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ نے سی ڈی اے کو کہا ان ریسٹورنٹس کو دیگر علاقوں میں ترجیح بنیادوں لیز دی جائے، سپریم کورٹ لیز کے عمل میں ترجیح دینے کے اپنے فیصلے کو حذف کرتی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل کیا جائے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 11 جنوری 2022 کو حکومت کو مارگلہ کی خوبصورت پہاڑیوں پر واقع مونال ریسٹورنٹ کو سیل کر کے اسے قبضے میں لینے کا حکم دیا گیا تھا، عدالت نے انتظامیہ کو مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں 8 ہزار 600 ایکڑ زمین کے حقیقی مالک کے نشاندہی کرنے والے بیان کو جمع کروانے کا بھی حکم دیا تھا۔

اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا تھا کہ مونال ریسٹورنٹ کی انتظامیہ اور سی ڈی اے کے درمیان لیز کا معاہدہ ختم ہو چکا ہے، مزید برآں عدالت نے 30 ستمبر 2019 کو مونال ریسٹورنٹ اور ملٹری اسٹیٹ افسر کے تحت کام کرنے والے ملٹری ونگ ریماؤنٹ، ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ (آر ایف وی ڈی) کے درمیان ایک معاہدے کو بھی کالعدم قرار دے دیا تھا۔

بعد ازاں 22 مارچ 2022 کو سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 11 جنوری کے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کو ریسٹورنٹ کو قبضے میں لینے اور اس کے اطراف کے علاقوں کو سیل کرنے کے فیصلے کو معطل کردیا تھا۔