پاکستان

اسلام آباد ہائیکورٹ: سزائے موت پانے والے5 نیول اہلکاروں کے وکیل کو ریکارڈ تک رسائی دینے کی ہدایت

ایڈیشنل اٹارنی جنرل درخواست گزاروں کے وکیل کی 9 دسمبر کو صبح 10 بجے انکوائری رپورٹ کے متعلقہ ریکارڈ تک رسائی یقینی بنائیں، جسٹس بابر ستار

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیول ڈاکیارڈ کراچی پر حملے کے الزام میں سزائے موت پانے والے پاک بحریہ کے 5 اہلکاروں کی دستاویزات کے حصول درخواست پر پاکستان نیوی کو ہدایت کی ہے کہ درخواست گزاروں کے وکیل کو 9 دسمبر کو صبح 10 بجے انکوائری رپورٹ کے متعلقہ ریکارڈ تک رسائی دی جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے سزائے موت پانے والے نیوی کے 5 اہلکاروں کی دستاویزات کے حصول کی درخواست پر سماعت کی۔

پاک بحریہ کے حکام نے عدالت میں موقف اپنایا کہ ہم نے دوران ٹرائل متعلقہ دستاویزات فراہم کردی تھیں، مکمل بورڈ آف انکوائری رپورٹ قومی سلامتی سے متعلق ہے، وہ فراہم نہیں کرسکتے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملزمان سے متعلقہ ریکارڈ کے حصے تک ان کے وکیل کو رسائی دے سکتے ہیں، نیول ہیڈکوارٹرز میں ریکارڈ موجود ہے، وکیل متعلقہ ریکارڈ کے نوٹس لے سکتے ہیں۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ یقینی بنائیں گے کہ ان کو دستاویزات تک رسائی دی گئی ہے، آپ یہ بھی یقینی بنائیں کہ وکیل کو نوٹس لینے کے لیے مناسب وقت دیا جائے۔

جسٹس بابر ستار ہدایت کی کہ آپ نے ایک انکوائری کی ہوگی دوسرا اس کی بنیاد پر سفارشات کی ہونگی، انکوائری کے نتیجے میں آپ نے جو اقدامات لینے کی سفارشات کی ہیں وہ آپ فراہم نہ کریں۔

نیول حکام نے موقف اپنایا کہ قومی سلامتی سے متعلق دستاویزات نہیں دکھا سکتے ہیں، عدالت نے استفسار کیا وہ آپ کی موجودگی میں انکوائری رپورٹ دیکھ لیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ اس پر حکام نے کہا کہ مجرموں سے متعلقہ ریکارڈ دکھا سکتے ہیں۔

عدالت عالیہ پاک بحریہ کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ انکوائری رپورٹ کے درخواست گزاروں سے متعلق حصے تک ان کے وکیل کو 9 دسمبر کی صبح 10 بجے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل کی موجودگی میں رسائی دی جائے۔ بعدازاں عدالت نے سماعت ملتوی کردی۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ پاک بحریہ کے سابق افسران ارسلان نذیر ستی، محمد حماد، محمد طاہر رشید، حماد احمد خان اور عرفان اللہ کو نیول ڈاکیارڈ کراچی پر حملے کے الزام میں کورٹ مارشل کے دوران سزائے موت سنائی گئی تھی جس پر ملزموں نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔

انہوں نے درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ جنرل کورٹ مارشل میں سزائے موت سنائی گئی لیکن وکیل کی معاونت فراہم نہیں کی گئی، ملزمان سے شواہد اور کورٹ آف انکوائری کی دستاویزات بھی شیئر نہیں کی گئیں، ان دستاویزات تک رسائی کے بغیر سزائے موت کے خلاف اپیل فائل کی گئی جو مسترد ہوئی۔

یاد رہے کہ 4 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے 5 سابق نیوی افسران کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا تھا جن کا کراچی میں قائم نیوی ڈاکیارڈ حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا تھا۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے وکیل کے مطابق ان دستاویزات تک رسائی کے بغیر سزائے موت کے خلاف اپیل فائل کی گئی جو مسترد ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کے وکلا کو دستاویزات تک رسائی کا حکم دیا تھا، عدالتی حکم پر وکلا کو دستاویزات تک محدود رسائی فراہم کی گئی، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کے مطابق دستاویزات تک رسائی کا اختیار چیف آف نیول اسٹاف کے پاس ہے۔

اس میں بتایا گیا کہ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف آف نیول اسٹاف سمجھتے ہیں کہ دستاویزات تک رسائی سے ریاست کے مفادات کو خطرہ ہوسکتا ہے، سوال یہ ہے کہ ریاست کے مفاد کو ایک شہری کے حق زندگی سے کیسے بیلنس کرنا ہے؟

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 اے شہریوں کو زندگی جینے کا حق اور فیئر ٹرائل کا حق فراہم کرتے ہیں، حق زندگی، فیئر ٹرائل سے متعلق سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے درخواست کے زیر سماعت ہونے تک ملزمان کو پھانسی نہ دی جائے۔

حکم نامے کے مطابق فریقین چیف آف نیول اسٹاف کا مؤقف بمعہ وجوہات عدالت میں جمع کرائیں، بتایا جائے کہ چیف آف نیول اسٹاف کو دستاویزات تک رسائی ریاست کے مفادات کے برخلاف کیوں لگتی ہے؟ چیف آف نیول اسٹاف کا مؤقف 3 ہفتوں میں عدالت میں سربمہر لفافے میں جمع کرایا جائے، کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے یکم جولائی 2024 کو مقرر کیا جائے۔

بعدازاں یکم جولائی 2024، کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پانچوں اہلکاروں کی سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کے حکم میں آئندہ سماعت تک توسیع کردی تھی۔

ڈان نیوز کے مطابق سماعت کے دوران جسٹس بابر ستار کی عدالت میں پاکستان نیوی کی جانب سے رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کی گئی تھی۔

رپورٹ میں پاکستان نیوی نے بتایا تھا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی شیئر نہیں کی جا سکتی۔

اس پر جسٹس بابر ستار نے پاک بحریہ کے نمائندے سے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں میں فیصلہ کر دوں؟ جس پر نمائندہ پاک بحریہ نے ہدایات لینے کے لیے عدالت سے وقت مانگ لیا تھا۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے تھے کہ آپ کوئی وجوہات نہیں بتا رہے کہ سزائے موت کیوں دی گئی؟ یہ بتانا کہ سزائے موت کیوں دی گئی یہ کوئی خفیہ مسئلہ نہیں، میرے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ سزائے موت کیوں دی گئی؟ وجوہات بتائی جائیں۔

بعد ازاں، عدالت نے ہدایات لینے کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی تھی۔

واضح رہے کہ 24 مئی 2014 کو نیوی ٹربیونل نے 6 ستمبر 2014 کو کراچی نیول ڈاک یارڈ پر حملہ کیس میں ملوث پاک بحریہ کے 5 افسران کو سزائے موت سنادی تھی۔

اس سے قبل 22 اکتوبر 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے کراچی میں قائم نیوی ڈاکیارڈ حملے میں ملوث مجرمان کے اہلِ خانہ کو ہدایت کی تھی کہ کسی قسم کا بھی ریلیف حاصل کرنے کے لیے نیول چیف کے پاس درخواست دیں۔

دورانِ سماعت اسسٹنٹ اٹارنی جنرل فرخ دل نے نشاندہی کی تھی کہ کیس ریکارڈ کی نوعیت حساس ہے اور اس کی تفصیلات فراہم کرنا قومی مفاد کے خلاف ہوسکتا ہے۔

نیوی ڈاکیارڈ حملہ

خیال رہے کہ 6 ستمبر 2014 کو کراچی کے ساحل پر قائم نیوی ڈاک یارڈ پر ہونے والے حملے میں ایک نیوی افسر شہید اور دو حملہ آور ہلاک ہوئے تھے جس پر 24 مئی 2016 کو نیوی ٹربیونل نے مقدمے کی سماعت کے بعد حملے میں ملوث پاک بحریہ کے 5 افسران کو سزائے موت سنائی تھی۔

پانچوں نیول افسران کو دہشت گرد تنظیم داعش سے تعلق ثابت ہونے، بغاوت کرنے، سازش تیار کرنے اور ڈاک یارڈ میں ہتھیار لے جانے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ آور، پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس ذوالفقار کو ہائی جیک کرکے امریکی بحری جہاز کو نشانہ بنانا چاہتے تھے، جسے سیکیورٹی فورسز نے ناکام بناتے ہوئے دو حملہ آوروں کو ہلاک جبکہ چار کو گرفتار کرلیا تھا۔

تاہم وکیل صفائی کے مطابق مجرمان نے دعویٰ کیا تھا کہ کو نیوی ٹریبونل میں سماعت کے دوران انہیں وکیل دفاع فراہم نہیں کیا تھا اور مجرمان میں سے ایک کے والد نے نیوی حکام سے وکیل دفاع فراہم کرنے کی تحریری درخواست کی تھی جس کے جواب میں انہوں نے یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ یہ معاملہ سماعت کے دوران اٹھایا جائے گا۔

اس حوالے سے اٹارنی جنرل فرخ دل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ کمانڈر سمیت سینئر نیول افسر کو اس کیس میں وکیل دفاع مقرر کیا گیا تھا۔