کراچی: کم سن بچی کو ہراساں کرنے والے سسر کو بہو کی گواہی پر 14 سال قید
کراچی کی سیشن عدالت نے بچی کو ہراساں کرنے اور اسکی نازیبا تصاویر بنانے کے جرم میں ملوث شخص کو اس کی بہو کی گواہی پر 14 سال قید اور 10 لکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی عبدالظہور چانڈیو نے کم سن بچی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بعد اس کی نازیبا تصاویر کھینچنے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ملزم اشوک کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 377-بی (ہراسانی کی سزا) کے تحت 14 سال قید کی سزا سنائی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ’درخواست گزار اور ملزم کے درمیان کسی سابقہ دشمنی یا بدنیتی کے شواہد نہیں ملے نا ہی وکیل صفائی نے درخواست گزار یا استغاثہ کے گواہوں سے جرح کے دوران ایسی کسی دشمنی کے حوالے سے رائے یا شواہد پیش کیے‘۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ’ملزم اس بات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ مدعی یا کلیدی گواہان بشمول ملزم کی اپنی بہو ، نے اسے جھوٹے الزام میں پھنسایا ہے اور یہ بات تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ اتنی کم سن بچی یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ ملزم کے خلاف اس قدر سنگین الزامات گڑھ سکے، لہٰذا ظاہری ثبوت قدرتی، مربوط اور قابل بھروسہ ہیں، ملزم کے قصور وار ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے’۔
عدالت نے ملزم پر 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہےاور عدم ادائیگی جرمانہ پر اسے مزید 6 ماہ قید بھگتنا ہوگی۔
سرکاری وکیل عرفانہ قادری کے مطابق والدہ کام پر جاتی تو متاثرہ بچی اپنے پڑوسیوں کےگھر جاتی تھی، ایک دن مجرم اشوک کی بہو نے کسی کو کا ل کرنے کے لیے اس کا موبائل دیکھا تو اس میں اسےمتاثرہ بچی کی نازیبا تصاویر ملیں، ملزم کی بہو نے بعد ازاں بچی کے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا، بچی نے بتایا کہ ملزم اسے ٹافیوں کا لالچ دیکر اسکی تصاویر کھینچتا تھا۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ جنسی ہراسانی کے مقدمات میں متاثرہ فرد کا بیان ہی سزا دینے کے لیے کافی ہوتا ہے بشرطیکہ وہ قابل اعتماد ہو اور دوسرے شواہد سے اس کی تصدیق کرتے ہوں، عدالت نے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ’ یہ طے شدہ قانون ہے کہ متاثرہ فرد کی گواہی، خاص طور پر جنسی ہراسانی کے جرائم میں اہمیت کی حامل ہوتی ہے’۔
ٹرائل کے دوران وکیل استغاثہ بیرسٹر بہزاد اکبر اورسرکاری وکیل نے دلائل میں کہا تھا کہ پراسیکیوشن نے 11 گواہوں پر جرح کے ذریعے کامیابی سےاپنا مقدمہ ثابت کیا ہے، طبی شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے دلیل دی کہ یہ ریپ نہیں جنسی ہراسانی کا مقدمہ ہے، انہوں مزید دلیل دی کہ ٹرائل کے دوران پیش کیے گئے متاثرہ بچی اور آزاد گواہوں کے بیانات ملزم کو سزا سنانے کے لیے کافی ہیں’۔
دوسری جانب ، وکیل صفائی نے اپنے موکل کے بےگناہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے دلیل دی کہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ( ایف آئی آر) تاخیر سے درج کرائی گئی، انہوں نے مزید دلیل دی کہ ان کے موکل کو ذاتی دشمنی کی بنیاد پربدنیتی کے ذریعے مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔
دریں اثنا، عدالت نے وکیل صفائی کی استدعا کو مسترد کرتے ہوئے قراردیا کہ’متاثرہ بچی اور گواہوں کے بیانات اعتماد پر مبنی، مستقل مزاج اور بغض سے پاک ہونے کے طے شدہ اصولوں پر پورا اترتے ہیں’۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ’شکایت کنندہ کی جانب سے ملزم کو دشمنی یا مذموم مقصد کے لیے نہیں پھنسایا گیا اور دفاع کی جانب سے یہ ثابت کرنے میں ناکامی استغاثہ کے مقدمے کی ساکھ کو مزید مضبوط کرتی ہے’۔
ملزم کے خلاف کلفٹن پولیس اسٹیشن میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376( ریپ) اور 511(ایسے جرائم کے ارتکاب کی کوشش کرنے پر عمر قید یا مختصر مدت کے لیے سزا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔