دنیا

’پلاسٹک کی آلودگی‘ کو کم کرنے کے لیے عالمی معاہدے پر مذاکرات بے نتیجہ ختم

100 سے زائد ممالک پلاسٹک کی پیداوار کو محدود کرنے کے خواہاں ہیں، چند تیل پیدا کرنے والے ممالک صرف پلاسٹک کے فضلے کو ’ہدف‘ بنانے کے لیے تیار ہیں۔

پلاسٹک کی آلودگی کی روک تھام کے لیے عالمی معاہدے پر بات چیت کرنے والے ممالک معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہے جب کہ 100 سے زائد ممالک پیداوار کو محدود کرنے کے خواہاں ہیں، چند تیل پیدا کرنے والے ممالک صرف پلاسٹک کے فضلے کو ’ہدف‘ بنانے کے لیے تیار ہیں۔

ڈان اخبار میں خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا کہ جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں قانونی طور پر پابند عالمی معاہدے کے لیے اقوام متحدہ کی بین الحکومتی مذاکراتی کمیٹی کا پانچواں اجلاس آخری اجلاس ہونا تھا، تاہم اجلاس میں شریک ممالک معاہدے کے بنیادی دائرہ کار سے بہت دور رہے، اور صرف اہم فیصلوں کو مستقبل کے اجلاس تک ملتوی کرنے پر اتفاق کر سکے۔

اجلاس کے چیئرمین لوئس ویاس والڈیویسو نے کہا کہ اگرچہ میں نے بہت سے شعبوں میں یکسانیت کے مضامین دیکھے ہیں لیکن کچھ دیگر شعبوں میں موقف مختلف ہے، سب سے زیادہ تقسیم کرنے والے مسائل میں پلاسٹک کی پیداوار کو محدود کرنا، پلاسٹک کی مصنوعات اور کیمیکلز کا انتظام کرنا اور ترقی پذیر ممالک کو معاہدے پر عمل درآمد میں مدد کرنے کے لیے مالی اعانت شامل ہے۔

واضح رہے کہ ماحولیاتی آلودگی اس وقت اہم ترین عالمی مسئلہ بن چکا ہے، صنعتی فضلے، دھواں چھوڑنے والے ٹریفک، ہوائی جہازوں، ایندھن کے بڑے پیمانے پر استعمال کے علاوہ پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی کی وجہ سے موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں، جس کے نتیجے میں سمندری طوفانوں، زلزلوں اور لینڈ سلائیڈنگ میں اضافے کے علاوہ شدید گرمی اور شدید سردی جیسے اثرات دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔

پاناما کی جانب سے پیش کردہ ایک آپشن، جسے 100 سے زائد ممالک کی حمایت حاصل ہے، عالمی سطح پر پلاسٹک کی پیداوار میں کمی کے ہدف کے لیے راہ ہموار کر سکتا تھا، جب کہ ایک اور تجویز میں پیداوار کی حد شامل نہیں تھی۔

ویلڈیویسو کی جانب سے اتوار کے روز جاری کی گئی ایک نظر ثانی شدہ دستاویز میں یہ خامیاں واضح تھیں، یہ دستاویز ایک معاہدے کی بنیاد بن سکتی تھی، لیکن انتہائی حساس معاملات پر آپشنز سے بھری ہوئی تھی۔

روانڈا میں ماحولیات کی انتظامی اتھارٹی کی ڈائریکٹر جنرل جولیٹ کیبارا نے کہا کہ ’ایسا معاہدہ جو صرف رضاکارانہ اقدامات پر مبنی ہو، قابل قبول نہیں ہوگا‘، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اسے سنجیدگی سے لیں اور ایک ایسے معاہدے پر بات چیت کریں جو مقصد کے لیے موزوں ہو اور ناکام ہونے کے لیے نہ بنایا جائے۔

سعودی عرب جیسے پیٹروکیمیکل پیدا کرنے والے ممالک کی مختصر تعداد نے پلاسٹک کی پیداوار کو کم کرنے کی کوششوں کی سخت مخالفت کی ہے اور مذاکرات کو موخر کرنے کے لیے طریقہ کار کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

سعودی نمائندہ عبدالرحمٰن الگویز نے کہا کہ ’اس معاہدے کے لیے کبھی اتفاق رائے نہیں تھا‘، انہوں نے کہا کہ کچھ نکات ایسے ہیں جو کسی نہ کسی طرح دستاویز میں شامل ہوتے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ہم مسلسل اصرار کرتے رہے ہیں کہ وہ دائرہ کار میں نہیں ہیں۔

اعداد و شمار فراہم کرنے والے یونیمیا کے مطابق چین، امریکا، بھارت، جنوبی کوریا اور سعودی عرب 2023 میں پولیمر (پلاسٹک) پیدا کرنے والے سرفہرست پانچ ممالک تھے۔

سنگین دھچکا

اگر اس تقسیم پر قابو پا لیا جاتا تو یہ معاہدہ 2015 کے پیرس معاہدے کے بعد ماحولیاتی تحفظ سے متعلق سب سے اہم معاہدوں میں سے ایک ہوتا۔

آذربائیجان کے شہر باکو میں ہونے والے کوپ 29 سربراہ اجلاس کے اختتام کے چند روز بعد یہ اجلاس ملتوی کیا گیا ہے، باکو میں ہونے والے اجلاس میں شریک ممالک نے ’موسمیاتی فنڈز‘ میں سالانہ 300 ارب ڈالر جمع کرنے کا نیا عالمی ہدف مقرر کیا ہے، جس معاہدے کو چھوٹے جزیرہ ممالک اور بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرف سے انتہائی ناکافی تصور کیا جارہا ہے۔

ماحولیات سے متعلق بات چیت کو سعودی عرب کی جانب سے طریقہ کار کے ’ہتھکنڈوں‘ کی وجہ سے بھی سست روی کا سامنا کرنا پڑا جس نے ایسی زبان کو شامل کرنے پر اعتراض کیا جس سے فوسل ایندھن سے دور منتقلی کے سابقہ عزم کا اعادہ ہو رہا تھا، کچھ مذاکرات کاروں کا کہنا ہے کہ بعض ممالک نے اقوام متحدہ کے اتفاق رائے کے عمل کو استعمال کرتے ہوئے ضروری سمجھوتوں سے گریز اور کارروائی کو یرغمال بنا لیا۔

سینیگال کے نمائندہ شیخ نڈیائے سیلا نے پورے مذاکرات کے دوران ووٹنگ کو خارج کرنے کو ’بڑی غلطی‘ قرار دیا، یہ معاہدہ گزشتہ سال پیرس میں مذاکرات کے دوسرے دور کے دوران کیا گیا تھا۔

پلاسٹک کی پیداوار

پلاسٹک کی پیداوار کا عمل زور و شور سے جاری ہے اور 2050 تک یہ تین گنا ہونے کا خدشہ ہے، پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ذرات ہوا، تازہ اشیا، یہاں تک کہ خواتین کے دودھ میں بھی پائے گئے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اقوام متحدہ ماحولیات پروگرام کی 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کی پیداوار 2050 تک تین گنا ہونے کی راہ پر ہے، اور ہوا، تازہ پیداوار اور یہاں تک کہ خواتین کے دودھ میں پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ذرات پائے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پلاسٹک میں پائے جانے والے کیمیکلز میں 3 ہزار 200 سے زیادہ کیمیکلز کی آمیزش شامل ہے، رپورٹ میں کہا گیا کہ خواتین اور بچے خاص طور پر ان کے زہریلے ہونے کا شکار ہوتے ہیں، اجلاس ملتوی ہونے کے باوجود متعدد مذاکرات کاروں نے بات چیت میں واپس آنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔

پاناما وفد کے سربراہ جان کارلوس مونٹیری گومز نے کہا کہ ’تاخیر کا ہر دن انسانیت کے خلاف تصور ہوگا، مذاکرات کا التوا ’بحران کا التوا‘ ہرگز نہیں ہے، جب تک ہم دوبارہ آمادہ ہوں گے، پیچیدگیاں بھی زیادہ ہوں گی‘۔