پاکستان

ضلع کرم میں جنگ بندی کے بعد عارضی امن قائم

ضلع کرم میں ابتدائی جھڑپ کے بعد مقامی انتظامی اور صوبائی حکومت کی مداخلت کے بعد فریقین 7 روزہ سیز فائر پر آمادہ ہوئے جس میں 3 روز کی توسیع کی گئی۔

ضلع کرم میں گزشتہ ہفتے ضلعی انتظامیہ کی ثالثی سے جنگ بندی کے معاہدے کے نفاذ اور سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے بعد ہفتے کے اختتام پر علاقے میں کافی حد تک امن رہا، تاہم سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز اپر کرم میں 2 افراد زخمی ہوئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 10 دن کی مسلح لڑائی کے بعد ہونے والی جنگ بندی سے علاقے میں عارضی امن دکھائی دے رہا ہے، جہاں مسلح تصادم کے نتیجے میں 118 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ ضلع کرم کے علاقے اپر دیر میں 21 نومبر کو ہونے والے ابتدائی حملے میں ایک گروپ کی جانب سے مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کی گئی تھی جب کہ مخالف گروپ کی جانب سے جوابی فائرنگ سے مجموعی طور پر 43 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

ضلع کرم میں ابتدائی جھڑپ کے بعد مقامی انتظامی اور صوبائی حکومت کی مداخلت کے بعد فریقین 7 روزہ سیز فائر پر آمادہ ہوئے جس میں 3 روز کی توسیع کی گئی۔

سرکاری حکام کے مطابق جنگ بندی کا اطلاق اپر کرم اور لوئر کرم دونوں علاقوں میں کیا گیا، اس دوران سیکیورٹی فورسز ، ایف سی اور لوکل پولیس کو متاثرہ علاقوں میں تعینات کیا گیا۔

ان علاقوں میں لوئر کرم کے خار کلے، مورگھے چنا، بلیش خیل، سنگینہ، عرفانی کلے، جلمی، چدریوال، علی زئی، باگان، بادشاہ کوٹ اور تالو کنج سمیت متاثرہ علاقوں میں خندقوں پر تعینات کیا گیا تھا۔

اسی طرح، اپر کرم میں جنگ بندی کا دائرہ گھوزغہری، ماتاسنگر، مقبل، گیدو، پیوار اور کنج علی زئی تک پھیلا ہوا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے باوجود دونوں فریقین کے مسلح افراد اپنی خندقوں میں موجود ہیں جب کہ گزشتہ روز معمولی جھڑپوں میں پوار میں دو افراد زخمی ہوئے اور اپر کرم میں صورتحال نازک ہے۔

گورنر اور وزیراعلیٰ کے اختلافات

دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور گورنر فیصل کریم کنڈی کے درمیان سیاسی تنازع پیدا ہوگیا ہے۔

فیصل کریم کنڈی نے کرم تنازع کے حل کے لیے 5 دسمبر کو کثیر الجماعتی کانفرنس کا اعلان کیا تھا جس پر وزیراعلیٰ نے تنقید کی تھی۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ وہ صوبے کے منتخب چیف ایگزیکٹو ہیں اور کثیر الجماعتی کانفرنس بلانا ان کا مینڈیٹ ہے، فیصل کریم کنڈی کو ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

وزیراعلیٰ نے کرم میں بدامنی کو فرقہ وارانہ منافرت قرار دیتے ہوئے دونوں برادریوں کے عمائدین پر زور دیا کہ وہ لوگوں میں تقسیم پیدا کرنے والے عناصر کی نشاندہی کریں، ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔

انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی کہ وہ بنکرز کو ختم کریں اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے والوں اور ان کی مالی معاونت کرنے والوں کی نشاندہی کریں جب کہ انہوں نے امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے نیم فوجی دستوں کی دو اضافی پلاٹونوں کی تعیناتی کا بھی حکم دیا ہے۔

کوہاٹ جرگہ

کرم میں کشیدگی کم کرنے کے لیے گزشتہ روز کوہاٹ میں گرینڈ کرم جرگہ ہوا جس میں فیصل کریم کنڈی نے طویل امن کے قیام کے لیے مقامی پختون عمائدین اور سیاسی رہنماؤں کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لاشیں اٹھانے کا درد ہم پختونوں سے زیادہ اور کون سمجھ سکتا ہے‘۔

گورنر نے کہا کہ وہ مستقل امن بحال ہونے تک کرم میں رہ سکتے ہیں، انہوں نے بدامنی پھیلانے کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرنے اور انہیں سزا دینے کا عہد کیا۔

کوہاٹ میں کمشنر ہاؤس میں ہونے والے جرگے میں مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر اور وفاقی وزیر سیفران انجینئر امیر مقام، اے این پی کے رہنما میاں افتخار حسین، پیپلز پارٹی کے سید محمد علی شاہ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی بشریٰ گوہر، جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم، قومی وطن پارٹی کے صوبائی چیئرمین سکندر حیات خان شیرپاؤ اور سابق رکن قومی اسمبلی ساجد حسین طوری سمیت متعدد دیگر سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔