لاہور: ’لاپتا‘ صحافی شاکر اعوان گھر پہنچ گئے
3 روز قبل مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے گھر سے حراست میں لیے گئے صحافی شاکر اعوان پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقع اپنے گھر واپس پہنچ گئے۔
3 روز قبل شاکر اعوان کو ان کے لاہور میں واقع گھر سے 20 سے زائد نامعلوم افراد نے ’اغوا‘ کیا تھا اوران کی بازیابی کے لیے صحافی کی والدہ نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔
مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے 2 روز قبل لاہور ہائی کورٹ نے 2 دسمبر بروز پیر تک انسپکٹر جنرل (آئی جی پنجاب) کو شاکر اعوان کی بازیابی کا حکم دیا تھا۔
شاکر اعوان نے آج ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ رات گئے ان کے گھر پولیس ینفارم اور سادہ کپروں والے لوگ آئے، انہوں نے گھر کی تلاشی لی، حراست میں لینے پر انہیں بتایا کہ میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے مقدمے میں ضمانت پر ہوں، میرے خلاف کوئی وارنٹ ہیں تو دکھائیں۔
ان کا مزید بتانا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے میری اور میری فیملی کو وارنٹ نہیں دکھائے،میرا موبائل اور دیگر قیمتی اشیا مجھ سے زبردستی لے لی گئی تھیں، چہرے پر کالا کپڑا ڈال کر، ہتھکڑیاں لگا کر زبردستی مجھے ساتھ لے جایا گیا۔
شاکر اعوان نے بتایا کہ مجھے نامعلوم مقام پر رکھا گیا، 3 دن بعد مجھے لاہور کے علاقے کیولری گراؤنڈ میں رات 2 بجے چھوڑ دیا گیا۔
واضح رہے کہ 24 اکتوبر کو لاہور کی مقامی عدالت نے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر شہر کے ایک نجی کالج کی طالبہ کے مبینہ ریپ کے حوالے سے پروپیگنڈا کرنے کے الزام میں درج مقدمے میں 2 صحافیوں شاکر اعوان اور سید ذیشان کی عبوری ضمانت منظور کی تھی۔
واضح رہے کہ 17 اکتوبر کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے سوشل میڈیا پر لاہور میں نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کا پروپیگنڈا کرنے کے الزام میں متعدد صحافیوں اور یوٹیوبرز سمیت 38 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے درج کردہ مقدمے میں سینئر صحافی و تجزیہ کار ایاز امیر، عمران ریاض، سمیع ابراہیم، فرح اقرار، صحافی شاکر محمود اعوان اور دیگر کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج کیے گئے مقدمے میں راجا احسن نوید، فیصل پاشا، نعیم بخاری، عمر دراز گوندل، رابعہ ملک، ثاقب جمیل، فرقان، ایڈووکیٹ میاں عمر اور حسیب احمد کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل نے درج مقدمے پر مزید کارروائی بھی شروع کردی تھی جبکہ اسی روز صحافی شاکر محمود اعوان نے مقدمے کے اندراج پر ایف آئی اے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
یاد رہے کہ 14 اکتوبر کو لاہور کے نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی جس کے خلاف طلبہ و طالبات مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تھے اور مذکورہ کالج میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا تھا، اس دوران پولیس سے جھڑپوں میں 27 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے سراپا احتجاج طلبہ کی نشاندہی پر نجی کالج کے ایک سیکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے لیا تھا، تاہم مبینہ طور پر متاثرہ طالبہ کے اہلخانہ کی جانب سے درخواست جمع نہ کرانے کے باعث تاحال واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے طالبہ کے ریپ کے پروپیگنڈے میں تحریک انصاف کو ملوث قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ طالبہ زیادتی نہیں گھٹیا سازش کا نشانہ بنی ہے، رات گئے مریم نواز نے سوشل میڈیا پوسٹ میں ریپ کے پروپیگنڈے میں ملوث ملزم کی گرفتاری کا دعویٰ بھی کیا تھا۔